Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق میں مغرب کے پاس کیا آپشنز تھے؟

ابتدا میں افغانستان اور عراق کی جنگ میں امریکی فوج کو آسانی سے کامیابیاں ملیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت سنہ 2001 میں افغانستان اور دو برس بعد عراق پر حملہ کیا گیا۔
عرب نیوز میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی حملوں کے نتیجے میں افغانستان سے طالبان اور عراق میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ عراق کے کرد علاقے کو قانونی طور پر خودمختار تسلیم کیا گیا اور ایک محدود مدت کے لیے افغانوں اور عراق کے باشندوں نے آزادی سے سانس لیا۔
لیکن آخر کار ان دونوں ملکوں کو بچایا نہ جا سکا۔
گزشتہ ماہ جب امریکی فوج افغانستان سے انخلا کر رہی تھی تو دنیا نے دیکھا کہ طالبان نے دوبارہ ملک پر قبضہ کیا اور یہ اس قدر تیزی سے ہوا کہ جس کا بہت سے لوگ تصور نہیں کر سکتے تھے۔
اسی دوران عراق ایسا ہے جس کو نظرانداز کر دیا گیا ہو، اجڑی ہوئی سرزمین، ایران کی حامی ملیشیا کے لیے ایک کھیل کا میدان بن گیا ہے۔
افغانستان اور عراق کی جنگ کے نتائج یہی نکالے جا سکتے ہیں کہ یہ خزانے اور خون کا بے دریغ ضیاع رہے۔ واشنگٹن میں بعض مبصرین اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ’نیشن بلڈنگ‘ اور ’ہم ایک نئی حکومت لائیں گے‘ جیسے الفاظ کو امریکی پالیسی سازوں کی ڈکشنری سے نکال دینا چاہیے۔
ایسے عظیم الشان پالیسی مقاصد ضرور امریکی تصورات میں عقلمندانہ ثابت ہو سکتے تھے۔ افغانستان اور عراق میں نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم ایک ایسی چیز ہے جس کو ’ٹھیک کرنا‘ امریکہ یا مغربی طاقتوں کے بس کی بات نہیں۔
جمہوری نظام فروغ پانے کے بجائے نئی حکومتیں لا کر الیکشن کرانے اور مختصر دورانیے میں بڑی امدادی رقوم مہیا کرنے سے دونوں ملکوں میں کرپٹ لیڈرشپ پیدا ہوئی۔
ان ملکوں میں پیدا کیے گئے جمہوری نظام ایک قومی وحدت یا شناخت کو آگے بڑھانے اور مقامی، قبائلی، نسلی اور فرقہ وارانہ ہمدردیوں کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ اسی طرح باقاعدہ حکومتوں کے خاتمے سے وہ ادارہ جاتی نظام بھی نہ رہے جو ایسے ملکوں میں کسی حد تک خود کو منظم رکھ پاتے۔
باہر سے آنے والے پیسے، یا ’امدادی رقوم‘ سے یہ بہت جلد زیادہ کرپٹ اور پیٹرن و کلائنٹ سسٹم بن گئے۔

عراق میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بڑا مسئلہ اب ایران کا بہت زیادہ اثر و نفوذ ہے (فوٹو روئٹرز)

روایتی طور پر ایسے گروپ جن کا ان ملکوں میں اثر و رسوخ تھا اور ان کو نئی حکومتوں میں مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا تو انہوں نے ان حکومتوں کے خلاف شورش کا آغاز کر دیا۔ اس کی مثالیں افغانستان میں پشتون اور عراق میں سنی عرب ہیں۔
شورش کی وجہ سے ان ملکوں میں امدادی رقم سے سکولوں کی تعمیر، بجلی کا نظام، پلوں اور زراعت کی بہتری بھی مشکل اور غیر یقینی کا شکار ہوگئی۔ منتخب رہنماؤں نے اپنا زیادہ تر وقت دفاتر میں گزار کر خود کو اور پنے قبیلے یا فرقے کے افراد کو مالدار بنانے پر لگایا۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو وہاں طالبان نے عوام کے بڑھتے غصے (ملک کے دشوار گزار علاقے اور پاکستان میں اپنی قربت) کو استعمال کرتے ہوئے 20 برس بعد اقتدار پر دوبارہ قبضہ کر لیا، جبکہ عراق میں سنی عرب پہلے کی طرح کبھی اقتدار حاصل نہیں کر سکیں گے۔
عراق میں شیعہ اور کرد مل کر آبادی کا 80 فیصد ہیں اور یہ شاید ایک اچھی چیز ہے۔
عراق میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بڑا مسئلہ اب ایران کا بہت زیادہ اثر و نفوذ ہے۔ اگر داعش عراق میں اقتدار حاصل کرنے کی سنی عربوں کی آخری کوشش کر رہی ہے تو اس کے ساتھ یہ ایران اور عراق میں شیعہ آبادی کو ان گنت ملیشیا بنانے کا موقع دے رہی ہے جو اب ملک کے عرب آبادی والے علاقوں میں تباہی پھیلا رہی ہیں۔
لبنان اور یمن کی طرح (دیگر ممالک جن کو اب ایران کی پراکسی شیعہ ملیشیا چلا رہی ہیں) عراق کی ریاست بھی اب کھوکھلی ہو چکی ہے۔
بااثر مقبول شیعہ موبلائزیشن فورسز کو اب ختم کرنا ناممکن ہو گیا ہے خاص طور پر جب ان کو قانونی طور پر تسلیم کیا جا چکا اور یہ ریاست سے تنخواہ لیتی ہیں، ہر چند کہ عراق کی منتخب حکومت ان کو کنٹرول نہیں کرتی۔

طالبان نے اقتدار پر دوبارہ بہت تیزی سے قبضہ کیا (فوٹو اے ایف پی)

عراق کے شمال میں کرد علاقے میں دو بڑے حکمران خاندانوں نے زیادہ بہتر کام کیا ہے اور ایک بہتر نظام حکومت تشکیل دیا ہے۔ مگر یہاں بھی یہ حکمران اپنے خاندان کی مسلح فوج ’پیشمرگا‘ چلا رہے ہیں اور اچھی خاصی کرپشن بھی کرتے ہیں۔
کیا یہ معاملات مختلف ہو سکتے تھے؟ اگر افغانستان میں طالبان اور عراق میں صدام حکومت کے خاتمے پر امریکی افواج قیام نہ کرتیں تو کیا ہوتا؟
دونوں جنگوں میں ابتدا میں امریکی افواج کو فائدہ ہوا۔ چند ہفتوں میں بغیر کسی جانی نقصان کے امریکیوں نے طالبان اور صدام کی حکومتیں ختم کیں۔
کیا ہوتا اگر ان حکومتوں کے خاتمے پر امریکی ان ملکوں میں تمام مکتب فکر اور گروہوں کے رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لاتے اور کہتے کہ ’ہم دو ہفتوں میں جانے والے ہیں، خود اپنے معاملات کو بہتر طریقے سے چلائیں یا ہم دوبارہ آ جائیں گے۔‘
افغانستان میں اس کا نتیجہ اس قدر مختلف نہ ہوتا۔ طالبان نے اقتدار پر دوبارہ بہت تیزی سے قبضہ کیا ہر چند کہ شمال میں اتنی آسانی سے نہیں جہاں عبدالرشید دوستم کے شمالی اتحاد کو کچھ کامیابیاں حاصل ہو جاتیں۔
اب طالبان افغانستان میں اس سے زیادہ رقبے پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جتنے علاقے میں سنہ 2001 میں نائن الیون کے وقت ان کا قبضہ تھا۔ کم از کم یہ تو نہ ہوتا کہ موجودہ حالات میں اتنی جلدی انخلا جیسی صورتحال بنتی اور امریکہ و اتحادیوں کو اتنی جانیں اور سرمایہ ایک لاحاصل ’نیشن بلڈنگ‘ کی کوشش میں نہ لگانا پڑتے۔

شیئر: