Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی چھاؤنیوں میں الیکشن، ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بجائے ’کام کو ووٹ دو‘

بینرز سے بظاہر نظر آتا ہے کہ انتخابات میں ن لیگ نے اپنی سیاسی حکمت عملی بدلی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز) 
پاکستان کی سیاست نت نئے سیاسی نعروں سے عبارت ہے۔ اور یہ نعرے کبھی تو شعوری طور پر مہم کا حصہ بنائے جاتے ہیں یا حادثاتی طور پر وجود میں آجاتے ہیں۔ چاہے پیپلزپارٹی کا نعرہ ’روٹی کپڑا مکان ہو‘ یا تحریک انصاف کا ’نیا پاکستان‘ اور پھر مسلم لیگ ن کا ’ووٹ کو عزت دو‘ ہو، ہر نعرے کی اپنی الگ پہچان ہے۔  
تاہم حالیہ سیاسی تاریخ میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک کیمپین ہے جس کا ن لیگ کے قائد نواز شریف اکثر اپنی تقاریر میں ذکر کر چکے ہیں، لیکن اس نعرے کے ساتھ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ ملک میں ہونے والے فوجی چھاؤنیوں کے بورڈز کے انتخابات میں یہ نعرہ استعمال نہیں کیا گیا۔  
جب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالت نے اقتدار سے باہر کیا اس وقت سے لے کر اب تک یہ پہلے عوامی انتخابات ہیں جہاں صرف ’کام کو ووٹ دو‘ کا نعرہ لگایا گیا۔
بظاہر کم اہمیت کے حامل کنٹونمنٹ بورڈز یا فوجی چھاؤنیوں کے بورڈز کے انتخابات 12 ستمبر کو ملک بھر میں ہوئے، جبکہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کی کامیابی نے ایک دفعہ پھر سیاسی پنڈتوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں۔
یہ انتخابات ہیں تو بلدیاتی نوعیت کے جن میں فوجی چھاؤنیوں کے سول انتظامی معاملات چلانے کے لیے یہاں کے رہائشی اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔  
لاہور کینٹ میں آپ والٹن روڈ سے داخل ہوں تو الیکشن گزرنے کے دو دن بعد بھی ہزاروں کی تعداد میں بینرز اور اشتہار سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔  
ان اشتہاروں اور بینرز میں آپ کو فوری طور پر جو چیز نظر آتی ہے وہ ہے مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان شیر اور اس پر لکھا ہوا ’کام کو عزت دو‘۔
امیدواروں کے بینرز اور تصاویر بھی بہت کم ہیں جس سے بظاہر نظر آتا ہے کہ ان انتخابات میں ن لیگ نے اپنی سیاسی حکمت عملی بدلی ہے۔  

سیاسی مبصرین کے خیال میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ نواز شریف کا ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)

وارڈ نمبر دو سے منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار قاری حنیف سے جب اردو نیوز نے پوچھا کہ اس مرتبہ ان کی الیکشن کیمپین میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیوں نظر نہیں آیا؟
انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’ہمیں تو جو قیادت حکم دے گی ہم نے وہی کرنا ہے۔ چونکہ یہ علاقہ سعد رفیق صاحب کے حلقے کا ہے تو انہوں نے جو کہا ہم نے لکھوا دیا۔ ویسے بھی میں خود بھی کام کو ووٹ دو کے نعرے کا زیادہ قائل ہوں۔ کیوںکہ مسلم لیگ ن کا اصل ٹریڈ مارک تو کام ہی ہے۔ کیا آپ کو نہیں پتا کہ ہماری جماعت جب اقتدار میں آتی ہے تو کیسے خوشحالی شروع ہو جاتی ہے۔‘
قاری حنیف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا ’آپ کو اس بات سے حیرت ہو گی بلکہ ہمیں بھی ہے کہ خواتین کے پولنگ بوتھس سے مسلم لیگ ن کے ووٹوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ نکلی ہے۔ یعنی جب عورتیں کسی جماعت کے خلاف ہو جائیں تو اسے شکست سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اور ویسے بھی جتنی مہنگائی ہے اور جو حالات ہیں کام کو ووٹ دو بہترین نعرہ ہے۔‘
شہروں میں فوجی چھاؤنیاں اس طرز پر ہیں کہ ان کے بڑے علاقے سول آبادی اور کاروباری مراکز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ گیریژن کے علاقوں میں امیدواروں کو اشتہار اور بیرنرز لگانے کی اجازت نہیں تھی۔  

شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں۔ (فوٹو اے ایف پی)

ملک بھر کی کُل 42 چھاؤنیوں میں 219 نشستوں پر یہ انتخابات منعقد ہوئے۔ 
پر حتمی نتائج کے مطابق پنجاب کی 119 نشستوں میں سے ن لیگ 48 جبکہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف 31 سیٹیں جیت پائی، جبکہ لاہور راولپنڈی اور واہ کینٹ میں بھی تحریک انصاف بری طرح ہاری ہے۔  
کیا مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی میں ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ پیچھے چلا گیا ہے؟
اس سوال کا جواب مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود نے کچھ یوں دیا ’یہ کہنا بالکل غلط ہے۔ یہ نعرہ پیچھے نہیں گیا، بلکہ اس وقت عوام کی جو حالت ہے اور جس طریقے سے یہ نااہل حکومت معاملات چلا رہی ہے ایسے میں قیادت نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ کیمپین کیسی کرنی ہے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو اور کام کو ووٹ دو کے نعروں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ووٹ کو عزت ملے گی تو کام کو ووٹ ملے گا۔ اس کو کسی اور تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔‘ 

ملک بھر کی کُل 42 چھاؤنیوں میں 219 نشستوں پر یہ انتخابات منعقد ہوئے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

خیال رہے مسلم لیگ ن میں بیانیے کی کشمکش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ نواز شریف کا ہے تو جھگڑے کی سیاست سے بچنے والے شہباز شریف کا نعرہ کام کو ووٹ دو ہے۔
2018 کے انتخابات میں یہ دونوں نعرے ایک ہی وقت میں ایک ہی طاقت سے نظر آئے البتہ فوجی چھاؤنیوں کے بورڈز کے انتخابات میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ سرے سے نظر ہی نہیں آیا۔

شیئر: