Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن اصلاحات اور سیاسی اختلافات: ماریہ میمن کا کالم

حکومت اور الیکشن کمیشن کی چپلقش  کا آغاز ڈسکہ الیکشن سے ہوا۔ فوٹو: اے پی پی
موجودہ حکومت نے ایک بار پھر الیکشن اصلاحات کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس میں بنیادی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ووٹ کا حق شامل ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ای وی ایم یا الیکٹرانک ووٹ مشین کو حکومت کی طرف سے کافی زورو شور سے پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز بھی اس کے لیے کافی متحرک ہیں۔
نظر یہ آ رہا ہے کہ الیکشن اصلاحات اور ای وی ایم کا با قاعدہ استعمال بھی سیاسی اختلافات کی نذر ہونے کو ہے۔ اپوزیشن اس کی شد ومد سے مخالفت کر رہی ہے باوجود اس کے کہ غیر جانبدار مبصرین اس کے استعمال اور صلاحیت کے بارے میں مثبت رائے ہی رکھتے ہیں۔ اب تازہ ترین تو یہ ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن اور حکومتی وزرا کے بیچ میں لفظی جنگ چھڑ گئی ہے بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ الیکشن کمیشن حکومتی وزرا کے حملوں کی زد میں ہے۔ کیا اس ماحول میں اصلاحات ممکن ہیں اور آخر اس ماحول کو ساز گار بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟
سب سے اولین یہ ضروری ہے کہ کسی بھی قسم کی الیکشن اصلاحات اتفاق رائے سے ہوں۔ ویسے تو حکومت کی عددی اکثریت بھی قلیل ہے مگر اگر صرف اکثریت کی بنیاد پر انتخابات کے قوانین میں تبدیلی لائی گئی تو یہ اس سے آئندہ سیاسی اور قومی منظر نامے کے لیے منفی اثرات پیدا ہوں گے۔ کل پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی، آج حکومت میں ہے، کل ہو سکتا ہے پھر اپوزیشن میں ہو۔ الیکشن کا سلسلہ حکومت سے زیادہ جمہوریت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور جمہوری اقدار آئینی نظام کے لیے ضروری ہیں۔ اگر الیکشن کے نظام پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری جمہوری قدریں کمزور سے کمزور تر ہوتی جائیں گی۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اس کا ایک سیدھا جواب ہو گا کہ سب پر ۔ مگر اگر مزید سوال ہو کہ کس پر زیادہ ذمہ داری ہے تو وہ حکومت ہے ۔ ایک تو قانون سازی کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے اور دوسرا یہ نئی اصلاحات ان ہی کی طرف سے لائی جا رہی ہیں۔ اس لیے ان پر اتفاق رائے بھی ان کی طرف سے پیدا ہونا چاہیے۔ اس اتفاق رائے میں صرف دوسری سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ میڈیا کو کچھ بریفنگز بھی دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ماہرین کو بھی کسی حد تک شامل کیا گیا مگر الیکشن کمیشن جو ایک آئینی ادارہ ہے اور آئین کے تحت الیکشن کا انعقاد جس کی ذمہ داری ہے وہ اس مشارت سے یا تو باہر ہے یا مطمئن نہیں ہے۔ 

اگر الیکشن کے نظام پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری جمہوری قدریں کمزور سے کمزور تر ہوتی جائیں گی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دوسری طرف الیکشن کمیشن کا عدم اطمینان یا عدم تعاون حکومت کو شدید گراں گذر رہا ہے۔ حکومتی وزیر کی طرف سے آگ لگانے کا بیان ہمارے سیاسی بیانیے میں ایک نا پسندیدہ اضافہ ہے۔ افسوس البتہ یہ ہے کہ اس پر افسوس کی بجائے جلتی پر تیل چھڑکا جا رہا ہے اور الیکشن کمیشن کو متنازع بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی الیکشن کمیشن پر اعتراضات کچھ عرصے سے شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ اس چپلقش  کا آغاز ڈسکہ الیکشن سے ہوا اور ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس بھی غالبا اس کی ایک وجہ ہے۔ جی بی اور کشمیر کے الیکشن میں حکومتی وزرا پر اعتراضات بھی حکومت کو کچھ خاص پسند نہیں آئے۔ 
الیکشن کمیشن پر حکومت کی لفظی گولہ باری کا سیاسی فائدہ اپوزیشن اٹھا رہی ہے مگر سیاسی مفادات اگر ایک طرف رکھیں تو ان پر بھی الیکشن اصلاحات میں تعاون اور شمولیت کی ذمہ داری ہے۔ خصوصا وہ جماعتیں جو  جمہوریت اور آئین کے لیے اپنی جدوجہد پر فخر کرتی ہیں ان سے یہی توقع ہے کہ ان اصلاحات کو دیکھیں اور ان میں مزید تبدیلیاں تجویز کریں ۔ اس کے لیے پہلے وہ آپس میں مشاورت کریں اور اپنی سطح پر قانونی اور تکنیکی ماہرین سے بھی رجوع کریں۔ مگر اپوزیشن نے البتہ ان اصلاحات کو یک جنبش قلم ہی رد کر دیا ہے جس کا صرف یہی مطلب ہے کہ ان کو بھی عارضی سیاسی مفاد مستقل اصلاحات سے زیادہ عزیر ہے۔
اس کو ہمارے سیاسی نظام کی بد قسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ایسی اصلاحات جن پر ویسے غور کرنے کے لیے سب تیار ہوں مگر  بد اعتمادی کی وجہ سے اپوزیشن حکومت کی بات سننے کو تیار نہیں۔ 

الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں انڈیا میں کامیابی سے استعمال ہو رہی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

الیکشن اور اس کے معاملات جامد اور ساکت نہیں ہو سکتے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین انڈیا جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے، وہاں پر کامیابی سے استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں الیکشن کے کئی اور طریقہ کار بھی جن میں مرحلہ وار ریاستوں کے  یا ہمارے اصطلاح کے مطابق صوبائی انتخابات  اور وفاقی انتخابات میں بھی پولنگ اور نتیجے کے درمیان ایک لمبا وقفہ ہوتا ہے ۔ ا س کے علاوہ انڈیا کے الیکشن کمیشن کے پاس انتظامی اختیارات بھی چلے جاتے ہیں جو ہمارے ہاں نگران حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے ای وی ایم کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی دیگر تجاویز کو بھی اہمیت دے اور ایک جامع اصلاحات کا پیکج لائے۔ دوسری طرف اپوزیشن کو بھی کھلے دل کے ساتھ قومی مفاد اور دور اندیش سوچ کے ساتھ ان اصلاحات کا جائزہ لینا چاہیے۔ اس کے سب سے پہلے بد اعتمادی کی فضا کو بہتر کرنا ہو گا۔
امید ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے سنجیدہ رہنما اس کو لیڈ کریں گے مگر وزیراعظم کو بھی اس میں ایک مثبت اور تعمیری بھی ادا کرنا ہو گا ورنہ یہ خدشہ ہے یا تو یہ اصلاحات پاس نہیں ہو سکیں گی او یا پھر متنازع ہی رہیں گی۔ دونوں صورتیں ہی ہمارے نظام کے لیے بہتر نہیں ہوں گی۔

شیئر: