Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے قبضے کو ایک مہینہ، ’آٹے کا ایک تھیلا یا کھانا پکانے کا تیل تک نہیں‘

بینکوں کے باہر ابھی بھی طویل قطاریں ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
کابل پر قبضے کے ایک مہینے بعد بھی طالبان کو ایسے مسائل کو سامنا ہے جو حل نہیں ہو پا رہے جبکہ وہ اپنی تیز رفتار فوجی فتح کو پائیدار امن والی حکومت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
برطانوی خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق چار دہائیوں کی جنگ اور لاکھوں لوگوں کی ہلاکتوں کے بعد اب سکیورٹی کی صورتحال کافی بہتر ہے لیکن گذشتہ 20 سالوں میں سینکڑوں ارب ڈالر کے ترقیاتی اخراجات کے باوجود افغانستان کی معیشت تباہی کا شکار ہے۔
خشک سالی اور قحط ہزاروں افراد کو دیہاتوں سے شہروں کی طرف لے جا رہے ہیں جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کو خدشہ ہے کہ اس مہینے کے آخر تک خوراک ختم ہو سکتی ہے، جو ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کو بھوک کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔
اگرچہ مغرب کی زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا نئی طالبان حکومت خواتین کے حقوق کے تحفظ کے اپنے وعدوں کو پورا کرے گی یا القاعدہ جیسے عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دے گی۔ تاہم بہت سے افغانوں کے لیے بنیادی ترجیح بقا ہے۔
کابل کے ایک رہائشی عبداللہ کا کہنا ہے کہ 'ہر افغان، بچے، وہ بھوکے ہیں، ان کے پاس آٹے کا ایک تھیلا  یا کھانا پکانے کا تیل تک نہیں ہے۔'

کابل میں لوگ نقد رقم کے لیے اپنا گھریلو سامان بیچ رہے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

بینکوں کے باہر ابھی بھی طویل قطاریں ہیں، ملک کے کم ہوتے زر مبادلہ کو محفوظ بنانے کے لیے پیسے نکالنے کی ہفتہ وار حد دو سو ڈالر یا 20 ہزار افغانی کر دی گئی ہے۔
ایسے بازار جہاں لوگ نقدی کے لیے گھریلو سامان بیچتے ہیں پورے کابل میں پھیل گئے ہیں، حالانکہ خریداروں کی کمی ہے۔
اربوں ڈالر کی غیر ملکی امداد کے باوجود افغانستان کی معیشت مشکل کا شکار تھی، جو آبادی میں مسلسل اضافے کے ساتھ ترقی کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔
ملازمتیں کم ہیں اور بہت سے سرکاری ملازمین کم از کم جولائی سے تنخواہ سے محروم ہیں۔
اگرچہ زیادہ تر لوگ لڑائی کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن معاشی بدحالی کی وجہ سے راحت کم ہوئی ہے۔
کابل کے ایک قصائی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'اس وقت سکیورٹی کافی اچھی ہے لیکن ہم کچھ نہیں کما رہے۔'

مغرب کی زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا نئی طالبان حکومت خواتین کے حقوق کے تحفظ کے اپنے وعدوں کو پورا کرے گی۔ (فوٹو: روئٹرز)

' ہر روز، چیزیں ہمارے لیے خراب ہوتی جا رہی ہیں، مزید تلخ۔ یہ واقعی ایک خراب صورتحال ہے۔'
دوسری جانب گذشتہ مہینے افراتفری میں کابل سے غیر ملکی انخلا کے بعد ہوائی اڈے کے دوبارہ کھلتے ہی طبی امداد کی پروازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔
بین الاقوامی ڈونرز نے ایک ارب ڈالر سے زائد امداد کا وعدہ کیا ہے تاکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے اس انتباہ سے بچا جا سکے کہ 'پورا ملک ٹوٹ' سکتا ہے۔

شیئر: