Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کارکردگی بہتر بنانے سے بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ممکن؟

نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز کی جانب سے یکے بعد دیگرے پاکستان کا طے شدہ دورہ منسوخ ہونے کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے انعقاد پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ 
سنہ 2009 میں پاکستان کے دورے پر آئی سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان پہلا موقع تھا جب سفید فارم ٹیموں کی پاکستان کے میدانوں میں کھیلنے کی راہ ہموار ہو رہی تھی, لیکن میچ سے چند لمحات قبل سکیورٹی تھریٹ کی وجوہات پر نیوزی لینڈ کا 18 سال بعد پاکستان کا دورہ یک طرفہ طور پر منسوخ کرنے سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔
نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے کے تین روز بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھی اگلے ماہ اکتوبر میں دو ٹی20 میچز پر مشتمل مختصر دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب خدشہ ہے کہ آئندہ برس کے آغاز میں آسٹریلیا کا دورہ پاکستان بھی منسوخ ہی کر دیا جائے گا۔  
پاکستان کرکٹ کو پہنچنے والے اس نقصان پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے حال ہی میں منتخب ہونے والے چیئرمین رمیز راجہ نے کھلاڑیوں کو بہترین کرکٹ کھیلنے پر توجہ مرکوز کرنے اور دنیا میں نمبر ون ٹیم بننے کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ ’جب ہماری ٹیم دنیا کی نمبر ون ٹیم بنے گی تو ہمارے ساتھ کھیلنے کے لیے لائنیں لگ جائیں گی اور ہر کوئی ہمارے ساتھ کھیلنا چاہے گا۔‘
آئیے پہلے تو نظر دوڑاتے ہیں کہ 2009 کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کیا رہی اور اس دوران کیا دنیا کی بہترین ٹیموں نے پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا؟  
پاکستان نے انفرادی کارکردگی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میلوں میں بھی 2009 کے بعد اپنا لوہا منوایا تھا۔ انگلینڈ میں کھیلے گئے 2009 کے ٹی20 ورلڈ کپ اپنے نام کر کے پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں دوسرا آئی سی سی ایونٹ جیتنے میں کامیاب ہوا۔  
2011-12 میں پاکستان نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں اس وقت کلین سویپ کیا جب انگلینڈ دنیائے کرکٹ میں نمبر ون ٹیسٹ ٹیم تھی۔ جب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند تھے اس وقت پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں شاندار کارکردگی کو جاری رکھتے ہوئے 2016 میں تاریخ میں پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ کی رینکنگ میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی۔ 
پاکستان نے 2017 میں انگلینڈ میں ہونے والے آئی سی سی کے آخری چیمپئنز ٹرافی کے ایونٹ میں ایک نوجوان ٹیم کے باوجود فائنل میں انڈیا کو شکست دے کر اپنے نام کیا تو دنیائے کرکٹ ایک بار پھر حیرت میں رہ گئی، لیکن کیا اس کارکردگی کے باوجود سفید فارم ٹیموں یا دنیائے کرکٹ میں بہترین سمجھی جانے والی ٹیموں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ سیریز کھیلنے کے خواہش کا اظہار کیا؟ اس کا جواب نفی میں آتا ہے۔  
’اس صورتحال میں ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی تلقین بلا جواز ہے۔‘ 
سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ خالد محمود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت ٹیم کو کارکردگی بہتر بنانے کی تلقین کرنے کا جواز کوئی نہیں ہے۔’

خالد محمود کے مطابق ’اگر ملک کی سکیورٹی صورت حال اتنی ہی بری ہوتی تو ان کے شہری پاکستان میں کیوں ہیں؟‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’آپ کی توقع، خواہش اور کوشش تو ہوگی کہ آپ کی بہترین ٹیم ہو اور ایسی تگڑی ٹیم ہو کہ سب آپ سے کھیلنا چاہیں یہ بات عمومی طور پر کرنا تو درست ہے، لیکن اس وقت یہ بات نہیں بنتی کیونکہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے طے شدہ دورے منسوخ کیے ہیں۔ یہ کوئی کھیل کا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نارمل صورت حال ہے جو آپ اپنی پراڈکٹ بہتر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے ایک غیر معقول وجہ سے طے شدے دورے منسوخ کیے اس کا جواب اسی انداز میں ان کو دینا چاہیے، کیا سکیورٹی الرٹ میچ والے دن ہی ملنا تھا اور اگر ایسی کوئی بات ہوتی بھی تو میزبان ملک کے ساتھ شئیر کی جاتی ہے، لیکن ایک فضول حرکت کی گئی ہے دونوں بورڈز کی جانب سے۔‘
’اگر ملک کی سکیورٹی صورت حال اتنی ہی بری ہوتی تو ان کے شہری پاکستان میں کیوں ہیں ان کے حوالے سے کوئی ایڈوائزی کیوں نہیں جاری کی گئی؟‘  
سابق چیئرمین پی سی بی کے مطابق ’جتنی مرضی اچھی پراڈکٹ (ٹیم) آپ بنا لیں اگر ہمارے خلاف اس طرح کی منصوبہ بندی ہونی ہے تو جتنی مرضی اعلٰی ٹیم آپ بنا لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔عمومی طور پر آپ کی سوچ ٹھیک ہے کہ پراڈکٹ بہتر ہو، لیکن اس وقت مسئلہ کھیل کا نہیں ہے۔‘  
سابق ٹیسٹ کرکٹر اور آئی سی سی کے میچ ریفری کرنل (ر) نوشاد علی خان کہتے ہیں کہ ’جہاں تک پاکستان میں سکیورٹی کے حوالے سے جو جواز بنایا جارہا ہے اس سے تو واضح ہے کہ چار پانچ کرکٹ بورڈز اکٹھے ہو گئے ہیں اور انہوں نے آپ کو سائیڈ لائن کر دیا ہے۔‘

نوشاد علی کے مطابق ’پاکستان کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ آپ کی صلاحیتیں دیگر ٹیمیوں سے بہتر ہوں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نوشاد علی خان کے مطابق ’اس صورت حال میں ہمارے پاس اپنی کرکٹ بچانے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ اپنی کرکٹ کو بہتر بنائیں، اپنے کھلاڑیوں کو بہتر بنائیں، سکیورٹی کو آپ مزید کیا بہتر بنائیں گے؟‘  
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ آپ کی صلاحیتیں دیگر ٹیمیوں سے بہتر ہوں اور آنے والے ورلڈ کپ میں انڈیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی کارکردگی سے جواب دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘جب سے رمیز راجہ نے عہدہ سنبھالا ہے ان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں آئی، لیکن ہمیں جذبات کے ساتھ نہیں بلکہ صبر کے ساتھ اور حکمت عملی کے ساتھ آئی سی سی میں لابنگ کرنے کی ضرورت ہے۔‘ 

شیئر: