Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوست دوست نہ رہا: دل سے دلی

اگر آپ کووی شیلڈ لگوا کر برطانیہ جائیں گے تو آپ کو دس دن گھر میں بند رہنا پڑے گا (فوٹو: اے ایف پی)
جب دو ملک ایک دوسرے سے کہیں کہ یار ہماری دوستی کی مثال دنیا میں دی جانی چاہیے، ہماری تاریخ دیکھو اور اب ہمارے تعلقات دیکھو، کون کہہ سکتا ہے کہ کبھی ہم چاک و گریباں تھے، ایک مالک تھا اور دوسرا غلام، لیکن دیکھواس تلخ تاریخ کے باوجود ہم اب شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔
اب یہ سب سن کر تعریف کرنے کا دل تو کرتا ہی ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگ تو چھوٹی موٹی باتوں پر بھی زندگی بھر منہ پھلا کر بیٹھے رہتے ہیں، مالک اور غلام کے رشتے کو یوں نظرانداز کرنا اور پھر بھلا دینا تو بہت دور کی بات ہے۔
یہ دو دوست برطانیہ اور انڈیا ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جب سے کورونا وائرس آیا ہے دوستیوں میں بھی وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ لوگ ایک دوسرے سے بچنے لگے، پہلے سے بھی زیادہ صرف اپنا مفاد دیکھنے لگے ورنہ وہ ہوتا نہیں جو آج کل دونوں کے رشتوں میں ہو رہا ہے۔
اب انڈیا کی حکومت سفارتی سطح پر برطانیہ کو کھری کھوٹی سنا رہی ہے اور حزب اختلاف کے رہنما اس پر نسلی تعصب کا الزام لگا رہے ہیں۔ اور یہ سب ایک ویکسین کے اوپر۔
انڈیا میں کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے تین چار کمپنیوں کے ٹیکے استعمال کرنے کی اجازت ہے، لیکن سب سے زیادہ وہ ٹیکا استمعال ہوتا ہے جو ایسٹرا زنیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے مل کر تیار کیا تھا۔ برطانیہ کا اپنا ٹیکا جو اس کے اپنے مشہور زمانہ تعلیمی ادارے کے رسرچرز کی غیرمعمولی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
لیکن اب لگتا ہے کہ ٹیکے میں کچھ کمی رہ گئی۔ اسے اگر چند مخصوص ممالک میں ہی لگایا جائے تبھی کام کرتا ہے۔ ورنہ نہیں۔ یا کم سے کم برطانیہ کی حکومت یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
انڈیا میں اس ٹیکے کو کووی شیلڈ کے نام سے بنایا جاتا ہے، باقاعدہ اور باضابطہ لائسنس کے تحت، اور اس وقت سے بنایا جارہا ہے جب اس کی افادیت پر رسرچ چل ہی رہی تھی اور اس کے استعمال کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔
وہ اس لیے کہ ٹیکے بنانا بہت پیچیدہ کام ہے اور اس میں بہت وقت لگتا ہے، اس لیے جب لگا کہ ٹیکا کامیاب ہو سکتا ہے تبھی سے اس کی ’سٹاک پائلنگ‘ شروع ہوگئی تھی۔ اور جیسے ہی اس کے استعمال کی منظوری ملی، ٹیکے لگانے کا کام شروع کر دیا گیا۔
ظاہر ہے کہ فارمولا بالکل وہی ہے جو برطانیہ میں استعمال ہوتا ہے، لہذا موثر بھی اتنا ہی ہونا چاہیے، لیکن برطانوی حکومت کی نظروں میں اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ وہ سرے سے ہی ٹیکا نہ لگوانے والوں اور انڈیا میں لائنوں میں لگ کر کووی شیلڈ لگوانے والوں میں کوئی فرق نہیں کرتی۔

انڈیا میں رہنے والے امریکی شہری یا مستقل ریزیڈنٹس جب چاہیں اور جتنی مربتہ چاہیں امریکہ واپس جاسکتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اگر آپ کووی شیلڈ لگوا کر برطانیہ جائیں گے تو آپ کو دس دن گھر میں بند رہنا پڑے گا، لیکن اگر یہ ہی ٹیکا آپ نے یورپ میں یا امریکہ میں کہیں لگوایا ہو تو آپ کے اوپر کوئی پابندی نہیں، جو چاہیں کریں اور جہاں چاہیں جائیں۔
انڈیا کی حکومت کئی مرتبہ برطانیہ سے اس بارے میں بات کر چکی ہے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ حال جب ہے کہ برطانوی حکومت میں وزیراعظم کے بعد والے دو سب سے طاقتور عہدے انڈیا نژاد برطانویوں کے پاس ہیں۔ پریتی پٹیل وزیر داخلہ ہیں اور رشی سناک وزیر خزانہ، لیکن اس بدلے ہوئے وقت میں کون کس کی سنتا ہے۔
لیکن حکمرانی اور ’لاجک‘ کا آپس میں اکثر کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح کی بے تکی شرائط دنیا کے بہت سے دیگر ممالک نے بھی عائد کر رکھی تھیں۔
مثال کے طور پر امریکہ میں اب تک یہ پالیسی تھی کہ اگر آپ امریکی شہری ہیں یا آپ کے پاس وہاں مستقل سکونت کا حق ہے تو آپ جہاں چاہیں سفر کریں۔ انڈیا میں رہنے والے امریکی شہری یا مستقل ریزیڈنٹس جب چاہیں اور جتنی مربتہ چاہیں امریکہ واپس جاسکتے ہیں۔
لیکن اگر آپ امریکہ میں ہی کام کرتے ہیں مگر آپ کے پاس شہریت یا گرین کارڈ نہیں ہے اور آپ نے ملک سے باہر سفر کرنے کی حماقت کر لی تو آپ کو واپس آنے کی اجازت نہیں تھی چاہے آپ نے امریکہ میں ہی کیوں نہ ٹیکا لگوایا ہو۔اب آخرکار یہ پالیسی بدلی جارہی ہے۔
تاہم کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اب ڈیڑھ سال سے زیادہ ہوگیا ہے اور عالمی سطح پر اب بھی کنفیوژن ہی نظر آتی ہے۔ جو ٹیکا امریکہ میں لگوانے سے آپ کے لیے سفر کے راستے کھل جاتے ہیں وہی ٹیکا کسی دوسرے ملک میں لگوانے سے کیوں اس کا اثر ختم ہوجاتا ہے؟

سیاحوں کو ایک مستحکم اور محفوظ ماحول زیادہ اپیل کرے گا (فوٹو اے ایف پی)

زیادہ تر سائنسدان اب یہ مانتے ہیں کہ ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنا پڑے گی، مستقبل قریب میں یہ وائرس کہیں جانے والا نہیں ہے۔
تاہم اس کے باوجود کہیں کوئی جامع حکمت عملی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا اب بین الاقوامی سیاحوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے کی تیاری کر رہا ہے۔ سنا ہے کہ ایک ڈیڑھ ہفتے میں کوئی بڑا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ پانچ لاکھ سیاحوں کو مفت ویزے فراہم کیے جائیں گے۔
ضرورت بیچ کا راستہ اختیار کرنے کی ہے۔ انڈیا بھی کرے اور باقی دنیا بھی۔ سیاحت کے لیے لوگوں کو آنے دیجیے، لوگوں کو اپنے رشتے داروں سے ملنے جانے دیجیے، لیکن زیادہ بڑی تعداد میں بلانے کی جلدی مت کیجیے۔ یہ پروموشن کا ٹائم نہیں ہے۔ اور ٹیکوں کے بارے میں ایک واضح پالیسی کا اعلان کیجیے، اسے جغرافیائی باریکیوں میں مت الجھائیے۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ ڈیلٹا کی طرح کورونا وائرس کوئی نئی شکل نہ اختیار کر لے۔
اور ہاں، ایسا کون سا غریب سیاح ہو گا جو کہے گا کہ چلو انڈیا گھومنے چلتے ہیں، انہوں نے آج کل ویزا فیس معاف کر رکھی ہے، دو تین ہزار روپے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی بچ جائیں گے۔
سیاحوں کو ایک مستحکم اور محفوظ ماحول زیادہ اپیل کرے گا، مفت ویزا نہیں۔ ویزا حاصل کرنے کا عمل آسان ہونا چاہیے، سستا نہیں۔
لیکن سنتا کون ہے۔ جب پرانے دوست ایک دوسرے کی نہیں سن رہے تو ہم کس گنتی میں آتے ہیں۔

شیئر: