Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میٹرک میں طالبہ کا ’اعزاز‘، 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کرنا ممکن ہے؟  

مردان بورڈ کے میٹرک کے نتائج کے مطابق قندیل نامی طالبہ نے 1100 نمبر حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کی (فوٹو: مردان بورڈ ویب سائٹ)
مردان بورڈ نے منگل کو میٹرک امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ ان نتائج نے اس وقت سب کو حیرت میں ڈال دیا جب بورڈ میں ٹاپ کرنے والی طالبہ نے 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔  
مردان بورڈ کے میٹرک کے نتائج کے مطابق قندیل نامی طالبہ نے 1100 نمبر حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ 1098 نمبر لینے والے تین طلبہ کو دوسری پوزیشن ملی ہے۔
امتحانات میں پورے نمبر حاصل کرنے کے حوالے سے سوال اٹھ رہا ہے کہ ایسا ممکن کیسے ہوا؟
مردان بورڈ کے شعبۂ امتحانات کے ایک عہدیدار نے اردو نیوز کو اس حوالے سے بتایا کہ ’کورونا کے باعث صرف اختیاری مضامین کے امتحان لینے کی پالیسی تھی اور انٹرمیڈیٹ کے صرف تین مضامین فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کا امتحان لیا گیا تھا، اس کے علاوہ 5 فیصد اضافی نمبر بھی حکومت کی پالیسی کے مطابق دیے گئے، اس لیے پورے نمبر آئے ہیں۔‘  
انہوں نے مزید بتایا کہ ’گذشتہ سال چونکہ طلبہ کو بغیر امتحانات کے پاس کر دیا گیا تھا، اس لیے جو نمبرز ان تین امتحانات میں حاصل کیے گئے ہیں وہی فرسٹ ایئر میں بھی لگا دیے گئے جس کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے۔‘  
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اختیاری مضامین میں جو نمبرز لیے گئے ہیں ان ہی کی بنیاد پر دیگر مضامین میں بھی وہی نمبرز دیے گئے ہیں۔ طلبہ کی تمام توجہ تین مضامین پر تھی، اس لیے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی طالب علم نے پورے نمبر حاصل کیے ہوں اور یہ ہمارے لیے بھی حیران کن ہے۔‘  

سابق چئیرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد کہتے ہیں کہ’ایسا ممکن نہیں کہ تمام مضامین میں 100 فیصد نمبر آجائیں‘ (فوٹو: مردان بورڈ ویب سائٹ)

سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد کہتے ہیں کہ ’اس طرح کے نتائج سے پاکستان میں تعلیم کے نظام سوال اٹھنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ہمارا مذاق اڑتا ہے۔‘
’ایسا ممکن نہیں کہ تمام مضامین میں 100 فیصد نمبر آجائیں، اگر ملٹیپل چوائس پر امتحان مشتمل ہو تو اس میں 100 فیصد نمبر آسکتے ہیں لیکن بورڈ کے امتحانات میں ایسا ممکن نہیں ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’ان نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو جانچنے کا طریقہ کار ہے، اس میں نقائص موجود ہیں اور طلبہ کو چند مضامین جانچ کر پروموٹ کرنے کا نظام ٹھیک نہیں۔ اس سے تو ہمارا مذاق بنا ہے۔‘  
ڈاکٹر مختار احمد کے مطابق ’بچوں کی ذہانت پر کوئی شک نہیں کیا جا رہا، کچھ بچے ذہانت کا اعلٰی درجہ رکھتے ہیں لیکن اس کی بھی ایک حد ہے، یہ تو ہم دنیا کو موقع دے رہے ہیں کہ ہم پر ہنسیں۔‘
’ اس سے ایک اور بات بھی واضح ہوتی ہے کہ تعلیمی بورڈز ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کے لیے اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ کئی بار چیزیں حقیقت سے دور نظر آتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے تعلیمی نظام پر بھی سوال ہے کہ جو تعلیمی بورڈز کے درمیان ایک مقابلہ ہے وہ کس قدر حقیقت سے دور ہے اور اس سے نقصان ملک کے مستقبل کا ہو رہا ہے۔‘  

شیئر: