Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں پاؤں سے امتحان دینے والا طالبِ علم اچھے نمبروں سے پاس

تُشار وشواکرما نے امتحان میں لکھائی کے لیے کسی کی بھی خدمت حاصل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)
انڈیا میں پیدائشی معذور ایک 19 سالہ لڑکے نے 12ویں جماعت کا امتحان اپنے پاؤں سے لکھ کر دیا اور 70 فیصد نمبروں کے ساتھ سے پاس بھی کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق تُشار وشواکرما نے امتحان میں لکھائی کے لیے کسی کی بھی خدمت حاصل کرنے سے انکار کردیا تھا اور پرچہ مکمل کرنے کے لیے اضافی وقت بھی نہیں مانگا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہت پہلے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ معذوری جس کی وجہ سے وہ اپنے ہاتھ استعمال نہیں کر سکتے وہ اسے اپنی ’طاقت بنائیں گے، کمزوری نہیں‘۔
تُشار وشواکرما کا کہنا تھا کہ ’میں نے خود کو کبھی معذور نہیں سمجھا۔ مجھے اپنے پیروں سے لکھائی کر کے ماسٹر آف آرٹس مکمل کرنے میں تین سال لگے۔ معذوری ایک سوچ ہے، جسمانی حالت نہیں۔‘
انڈیا کی شمالی ریاست اترپردیش سے تعلق رکھنے والے تُشار وشواکرما نچلے متوسط طبقے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، راجیش، لکھنؤ میں چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے تاجر ہیں۔
تُشار وشواکرما لکھنؤ میں اپنے والدین اور تین بھائی بہنوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
راجیش کا کہنا ہے کہ تُشار وشواکرما کے پیدا ہونے کے کچھ مہینوں بعد وہ انہیں لکھنؤ اور دیگر جگہوں میں ’کم وسائل‘ والے ہسپتالوں میں لے کر گئے تاکہ ان کی معذوری کا پتہ لگایا جا سکے لیکن اس بارے میں کچھ نہ ہوسکا۔
46 سالہ راجیش نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’جب تُشار بہت چھوٹا تھا، لکھنؤ میں ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ مجھے اس کے بڑے ہونے کے بعد اس کا علاج کروانا چاہیے۔ جب وہ تین سال کا ہوا میں اسے دوبارہ ہسپتال لے کر گیا لیکن ڈاکٹروں نے صرف دوائیں دیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ لکھنؤ میں پی جی آئی ہسپتال میں ڈاکٹروں نے تُشار وشواکرما میں ’متعدد پیدائشی مسائل‘ کی تشخیص کی اور کہا کہ وہ ’اپنے ہاتھ کی کچھ رگیں کھو رہا ہے۔‘

سکول انتظامیہ کے مطابق تُشار ہونہار طالب علم ہے۔ (فوٹو: ان سپلیش)

اس کے بعد ان کے اہلِ خانہ نے کوشش کی کہ تُشار وشواکرما کا علاج لکھنؤ، اترپردیش کے شہر چتراکوٹ اور راجستھان کے شہر ادے پور میں کروائیں لیکن ’کوئی بھی ڈاکٹر اس کی مدد نہیں کر سکا۔‘
بالآخر 2015 میں راجیش کو ادے پور میں ایک جگہ کا بتایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ تُشار وشواکرما کے ہاتھوں کی پلاسٹک سرجری کروائی جائے۔
راجیش نے بتایا کہ ’پہلے ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ سرجری کریں گے لیکن پھر فیصلہ بدل دیا کیونکہ وہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس سے میرا بیٹا ٹھیک ہو پائے گا یا نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ وہ رگیں جو اس (تُشار) کے ہاتھوں کی حرکت کو کنٹرول کرتی ہیں وہ موجود نہیں تھیں اور اس مسئلے کو آپریشن کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘
لکھنؤ کے پی جی آئی ہسپتال کے ڈاکٹر انکُر بھردواج، جو تُشار وشواکرما کا علاج کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے، جب بدھ کو عرب نیوز نے ان سے رابطے کی کوشش کی، وہ اس بارے میں بات کرنے کے لیے موجود نہیں تھے۔

تُشار کا خاندان اچھی زندگی کی امید لیے لکھنؤ منتقل ہوا تھا۔ (فوٹو: ان سپلیش)

تاہم مشرقی ریاست بہار میں پٹنہ کے ڈاکٹر جے بھادانی نے بتایا کہ متعدد پیدائشی مسائل بیماری اور بچوں میں معذوری کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
راجیش کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان پڑوسی ضلع اوناؤ سے ’بہتر زندگی‘ کی امید میں 20 سال قبل لکھنؤ منتقبل ہوا۔ لیکن انہیں ہمیشہ ’تُشار کی فکر لگی رہی، خاص طور پر جب ہم بوڑھے ہوجائیں گے۔‘
تاہم تُشار وشواکرما کے حالیہ امتحانات میں اچھے نمبر’اس کے مستقبل کی امید‘ ہیں۔
راجیش کا کہنا تھا کہ ’مجھے اب معلوم ہے کہ مستقبل میں اسے ہماری مدد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تُشار نے ہمیں غلط ثابت کردیا ہے اور مجھے یقین ہے وہ ہمارا فخر بنے گا۔‘
اپنے اچھے نمبروں کے لیے تُشار وشواکرما لکھنؤ کے کرییٹیو کانوینٹ کالج کے مشکور ہیں جہاں سے اسے بے حد حمایت حاصل ہوئی۔

تُشار کے والد اسے کئی ہسپتال لے کر گئے لیکن علاج نہ ہو سکا۔ (فائل فوٹو: ان سپلیش)

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں آگے پڑھنے کے لیے (کسی جگہ) داخلے کی کوشش کر رہا تھا تو کوئی بھی ایک معذور طالب علم کو داخلہ دینے پر راضی نہیں ہو رہا تھا ۔ تاہم کرییٹیو کانوینٹ کالج نے میری بہت مدد کی۔‘
سکول مینیجر یوگیندر سچن نے بتایا کہ کالج نے تُشار وشواکرما کی تعلیم کے لیے ان کے گھر والوں سے فیس نہیں طلب کی۔
’ہم نے تُشار کو ایک پورا بینچ دیا ہوا تھا تاکہ اسے لکھائی کرنے میں کوئی مشکل نہ پیش آئے۔‘
تآشار وشواکرما کا کہنا ہے کہ وہ انجینیئر بننا چاہتے ہیں اور اب اس خواب کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
’یہ آسان نہیں ہوتا جب آپ کے ہاتھ کام نہ کر رہے ہوں، لیکن میں نے کبھی اپنے ذہن میں منفی سوچ کو جگہ نہیں دی۔‘

شیئر: