Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل میں پناہ لینے والے افغانوں کی اپنے آبائی علاقوں کو واپسی

شمالی افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں افراد نے کابل میں پناہ لی ہوئی تھی۔ فوٹو اے ایف پی
افغانستان میں طالبان اور سابق افغان حکومت کے درمیان لڑائی کے دوران بے گھر ہو کر کابل میں پناہ لینے والے ہزاروں افراد نے واپس اپنے گھروں کو جانا شروع کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شمالی افغانستان سے بے گھر ہونے والے افراد جو کابل میں عارضی خیموں میں پناہ گزیں تھے، لڑائی ختم ہونے کے بعد واپس اپنے گھروں کو جانا شروع کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال کے آغاز میں طالبان کی جانب سے حملوں میں تیزی کے بعد شہریوں نے محفوظ مقامات پر منتقل ہونا شروع کر دیا تھا۔
دارالحکومت کابل کے مرکز میں واقع شہر نو پارک میں ہزاروں کی تعداد میں خاندانوں نے خیموں میں پناہ لی ہوئی تھی، جہاں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں۔
افغان خواتین رضاکاروں کی ایسوسی ایشن نے درجنوں کی تعداد میں بسیں بک کروا کر ایک ہزار 68 خاندانوں کو ان کے آبائی علاقے قندوز بھیجا ہے۔
ایسوسی ایشن کی اہلکار رفیع اللہ زوحہ نے بتایا کہ ان خاندانوں کو دس ہزار افغانی نقد بھی دیے گئے ہیں تاکہ وہ خوراک اور دیگر بنیادی اشیا ضرورت کا انتظام کر سکیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں بم دھماکوں اور فضائی حملوں کا سلسلہ بند ہو گیا ہے جو گزشتہ چند دہائیوں سے جاری تھا۔
شمالی صوبہ قندوز سے نقل مکانی کرنے والے 39 سالہ ہادی نے بتایا کہ ’جنگ کے باعث جانا پڑا۔ ہمارا گھر تباہ ہو گیا تھا، بری طرح نقصان پہنچا تھا۔‘

لڑائی کے بعد شہریوں نے واپس اپنے گھروں کو جانا شروع کر دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ہادی نے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاید واپس جا کر وہ ایک یا دو ڈالر بھی نہ کما سکیں جو وہ پہلے کمایا کرتے تھے۔
افغانستان کی معیشت بدحالی کا شکار ہے، متعدد افراد روزگار کھو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملک کی ایک تہائی آبادی کے قحط کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ رواں سال 6 لاکھ 34 ہزار 800  افغانوں نے نقل مکانی کی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے کہا تھا کہ سال 2020 کے آخر تک تقریباً 20 لاکھ 90 ہزار افغان اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

شیئر: