Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین نیب کا تقرر، صدر نے آرڈیننس جاری کر دیا

آرڈیننس کے ذریعے نجی تنازعات، بینک تنازعات اور ٹیکس کے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا۔ فوٹو: سکرین گریب
پاکستان کی وفاقی حکومت نے احتساب کے ادارے ’قومی احتساب بیورو‘ کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو نئے چیئرمین کی تعیناتی تک توسیع دیتے ہوئے نیب قانون میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے صدرِ پاکستان وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کریں گے جبکہ ’اس آرڈیننس کا دوسرا حصہ ایکٹ بھی ہوگا جس کے لیے ہم اپوزیشن سے مشاورت کریں گے۔ دیگر اصلاحات پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے کریں گے۔‘
بدھ کو وزیر قانون فروغ نسیم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کے ذریعے نجی تنازعات، بینک تنازعات اور ٹیکس کے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا ہے تاکہ یہ صرف بڑے معاملات کو دیکھ سکے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ اب نیب کے پراسیکیوٹر جنرل ہی ریفرنس فائل کریں گے اور وہی اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ ’صدر چیئرمین نیب کا تقرر کریں گے، وہ اس کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن سے لیڈر سے مشاورت کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ اور اگر کسی وجہ سے یہ مشاورت نتیجہ خیر نہیں ہوتی، اتفاق رائے نہیں ہوتا یا ناکام ہو جاتی ہے تو پھر اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔
’سپیکر اس کے لیے چھ حکومتی اور چھ اپوزیشن ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں گے۔‘
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو مس کنڈکٹ کی کسی کو شکایت ہے تو چیئرمین نیب کو ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل ہی اس کا فورم ہوگا۔ ’جب تک نئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہوتا موجودہ چیئرمین ہی برقرار رہیں گے اور ان کے پاس تمام اختیارات ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ موجودہ چیئرمین ہی اگلی پوری مدت کے لیے لگائے جائیں گے تاہم وزیراعظم موجودہ چیئرمین اور پرانے تمام چیئرمین کی کارکردگی کو مدنظر رکھیں گے۔
’پراسیکیوٹر جنرل کے کردار کو بھرپور طریقے سے بڑھا رہے ہیں۔ پورے نظام کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے پراسیکیوٹر جنرل نگرانی کریں گے۔ ایک سیکشن شامل کیا جا رہا ہے کہ کسی کے خلاف پراسیکیوشن شروع کرنی ہے یا ختم کرنی ہے اس کا فیصلہ پراسیکیوٹر جنرل کریں گے۔‘

وزیر اطلاعات کے مطابق نیب قانون میں دیگر ترامیم ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہوں گی۔ فائل فوٹو

وزیر قانون نے بتایا کہ نیب کیس میں ضمانت کا اختیار ٹرائل کورٹ کو دیا جا رہا ہے کہ کسی ملزم کو ضمانت دینی ہے یا نہیں دینی، اس کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کرے گی۔
’مقدمات کے مکمل ہونے میں بیس بیس سال سے تاخیر ہے۔ شواہد ریکارڈ کرنے کے لیے جدید ڈیوائسز استعمال کیے جائیں گے۔ آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ ہوگی اور ایز لائیو ٹرانسکرپٹ ہوگا جو سب کے سامنے ہوگا۔‘
فروغ نسیم نے بتایا کہ بینک یا فنانشل ادارے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے خلاف نیب کی کارروائی سٹیٹ بینک کے گورنر کی اجازت سے مشروط ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ آرڈیننس لانے کو انتظامی اختیار کا استعمال نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ آئین میں شامل ہے۔

شیئر: