Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین نیب کی تعیناتی پر ہمیشہ تنازعات کیوں جنم لیتے ہیں؟ 

سپریم کورٹ اب تک تین چیئرمین نیب اور ایک قائم مقام چیئرمین کی تقرری کو غیر قانونی کہہ کر کالعدم قرار دے چکی ہے- (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں احتساب کا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) اپنے قیام سے اب تک اکثر و بیشتر تنازعات میں گھرا رہا ہے۔ فوجی دور میں اس پر الزام لگتا ہے کہ یہ سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ جمہوری ادوار میں حزب اختلاف کی جانب سے اسے سیاسی انتقام کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ اب تک تین چیئرمین نیب اور ایک قائم مقام چیئرمین کی تقرری کو غیر قانونی کہہ کر کالعدم قرار دے چکی ہے۔ جن میں دو چئیرمینوں کی تقرری غیر قانونی قرار دیے جانے کی وجہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت مکمل نہ ہونا قرار دی گئی۔ 
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے ایک پیپلز پارٹی کے دور میں تعینات ہونے والے چئیرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ سید دیدار حسین شاہ کی تقرری کو موجودہ چئیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے کالعدم قرار دے کر عہدے سے فارغ کر دیا تھا۔ جسٹس جاوید اقبال اس وقت سپریم کورٹ کے سینیئر جج تھے۔

سیف الرحمان کا متنازع احتساب

نیب کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو نیب کی موجودہ شکل سے پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے صدر فاروق لغاری کے احتساب کمیشن کو ختم کر کے احتساب بیورو قائم کرکے اپنے قریبی ساتھی سینیٹر سیف الرحمان کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ 
ان پر الزام لگا کہ انھوں نے بے نظیر بھٹو کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ان کے شوہر آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کیے اور جسٹس قیوم کے ساتھ مل کر انہیں سزا دلوائی۔ جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
یوں احتساب کے آغاز ہی متنازع ہوگیا۔

’چیئرمین نیب کی تقرری پر تنازع سے احتساب مشکوک‘

پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے احتساب بیورو کو قومی احتساب بیورو کا نام دیا۔ ان کے احتساب بیورو کو سیاسی جماعتیں اب بھی وفاداریاں تبدیل کرنے والا ق لیگ اور پٹریاٹ گروپ کا خالق ادارہ قرار دیتی ہیں۔ 
سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق ’نیب کا احتساب کا نظام اور اس کے سربراہوں کی تقرری متنازع رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں کے ذریعے چیئرمین نیب کی تقرری کو بارہا کالعدم قرار دے چکی ہے۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 'یہ سچ ہے کہ نیب کے حوالے سے بہت سے تنازعات ہیں۔ نیب کا اپنا کردار اس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے متعدد بینچوں کے ریمارکس اور پھر نیب چیئرمین کی تعیناتی کے وقت ہر دفعہ تنازع نہ صرف نیب بلکہ احتساب کے عمل کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے۔'
پرویز مشرف رخصت ہوئے تو ملک میں 11 سال بعد جمہوری حکومت آئی۔ ملک میں عدلیہ بحالی کے بعد سپریم کورٹ سے تاریخی فیصلے سامنے آ رہے تھے کہ این آر او کو کالعدم قرار دیے جانے والے فیصلے کے تحت اس وقت کے چئیرمین نیب نوید احسن کو بھی سپریم کورٹ نے ہٹانے کا حکم دے دیا۔ وہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہٹائے جانے والے پہلے چیئرمین نیب تھے۔
اس سے پہلے کہ حکومت نیا چیئرمین نیب مقرر کرتی حکومت نے نیب کے جاوید قاضی کو قائم مقام چیئرمین نیب مقرر دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ نے انہیں اس بنیاد پر غیر قانونی قرار دے کر عہدے سے ہٹا دیا کہ نیب آرڈیننس میں قائم مقام چیئرمین کا عہدہ موجود ہی نہیں ہے۔ 

جسٹس جاوید اقبال کا ایک تین سطری فیصلہ


جسٹس جاوید اقبال کی تقرری پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا لیکن بعدازاں انہیں تعینات کرنے والی دونوں جماعتیں ان کے خلاف ہو گئیں۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)

اٹھارھویں ترمیم کے بعد چئیرمین نیب، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کی شرط رکھی گئی تو حکومت نے 2010 میں جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ کو چیئرمین نیب تعینات کیا۔
قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ان کی تعیناتی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ مارچ 2011 میں موجودہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں بینچ نے تین سطری فیصلے میں ان کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں با معنی مشاورت جسے بعد میں نتیجہ خیز مشاورت قرار دیا گیا کو لازمی قرار دیا۔ 
اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کا اس وقت موقف تھا کہ مشاورت لازم ہے اتفاق رائے نہیں تاہم چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آگاہ کرنے کو مشاورت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ 
جسٹس دیدار حسین شاہ کے بعد حکومت نے ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کو چئیرمین نیب مقرر کیا تو قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے ایک مرتبہ پھر مشاورت نہ کرنے کا کہہ کر ان کی تقرری کو چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ان کی تقرری کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ 
نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے تو نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے کئی نام زیر غور آئے لیکن مشاورتی عمل ناکام رہا۔ بالآخر دونوں نے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ کو قبل از وقت ریٹائرڈ کر کے چیئرمین نیب بنانے پر اتفاق کر لیا۔
اپوزیشن کی جانب سے دیے جانے والے نام پر حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعت تو بمشکل متفق ہو گئی تھیں تاہم پارلیمان میں نووارد جماعت تحریک انصاف نے ان کی تعیناتی کو چیلنج کر دیا تاہم انہیں عہدے سے ہٹانے میں وہ ناکام رہی۔
صرف یہی نہیں بلکہ پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد جب نیب کو نواز شریف، اسحاق ڈار، مریم نواز اور کیپٹن صفدر سمیت دیگر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم ملا تو اس وقت بھی تحریک انصاف نے چیئرمین نیب قمر زمان چودھری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا۔ 
قمر زمان چودھری کے بعد نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا نام بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کیا گیا جس سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اتفاق کیا۔ 
یہ بھی محض اتفاق ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تعینات ہونے والے دونوں چیئرمین نیب کو قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت نہ کرنے کی وجہ سے ہٹایا گیا جبکہ ن لیگ کے دور میں تعینات کیے گئے دونوں چیئرمین کے نام پیپلز پارٹی نے دیے جس پر ن لیگ کے وزراءاعظم نے اتفاق کیا۔ 

حکومت موجودہ چیئرمین نیب کو کیوں برقرار رکھ سکے گی؟

جسٹس جاوید اقبال کی تقرری پر تمام سیاسی جماعتوں نے اگرچہ اتفاق کیا لیکن بعد ازاں نیب کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کی بنیاد پر انہیں تعینات کرنے والی دونوں جماعتیں ان کے خلاف ہو گئیں۔ اب جب ان کی مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت انہیں ایک آرڈیننس کے ذریعے توسیع دینے یا ازسرنو ان کی تعیناتی کا سوچ رہی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات اعلان کر چکے ہیں کہ قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہیں کی جائے گی۔ یوں صورت حال پیپلز پارٹی کے دور سے بھی مختلف نظر آ رہی ہے۔ 
سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ 'اپوزیشن لیڈر کون ہو گا اس کا فیصلہ قومی اسمبلی نے کرنا ہے۔ فواد چوہدری انہیں چور کہہ کر آئینی ذمہ داری سے روگردانی تو نہیں کر سکتے۔ حکومت کا یہ موقف اور طرز عمل غیر قانونی اور غلط ہے۔' 
ان کے مطابق 'چیئرمین نیب کو توسیع نہیں دی جا سکتی ازسرنو تعیناتی کی جا سکتی ہے جس کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنا ہو گی۔ اگر حکومت کسی آرڈیننس کے ذریعے تعیناتی کرتی ہے تو وہ تو تین چار مہینے کے لیے ہو گی کیونکہ پارلیمان ضروری نہیں کہ آرڈینینس کو بل کی صورت میں منظور کرے۔' 
انہوں نے کہا کہ 'اگر اپوزیشن آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے تو عدالت اسے بدنیتی پر مبنی قرار دے خارج کرے، اس کے امکانات بہت کم ہیں تاہم قانون کی خلاف ورزی پر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ آرڈیننس کا اجراء حکومت کا آئینی اختیار ہے سپریم کورٹ اسے چھین نہیں سکتی۔' 
تاہم آئینی ماہر اکرام چودھری کا کہنا ہے کہ 'سپریم کورٹ میں اپوزیشن اور ان کے وکلاء حکومتی بدنیتی ثابت کر دیں اور سپریم کورٹ کے نیب سے متعلق اپنے ریمارکس کو سامنے رکھا جائے تو آرڈنینس بدنیتی کی بنیاد پر بھی خارج ہو سکتا ہے۔' 

شیئر: