Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین کو ہراساں کرنے کے مقدمات میں ’چالان جمع نہ کرانے‘ سے تاخیر

اگست کے مہینے میں دو خواتین کو رکشے پر جاتے ہوئے ہراساں کیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اگست کے مہینے میں پے در پے ایسے واقعات پیش آئے جن میں خواتین کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔
سب سے زیادہ جس واقعے کی بازگشت سنائی دی وہ مینار پاکستان پر 14 اگست کو ہونے والا واقعہ تھا جس میں ایک خاتون ٹک ٹاکر عائشہ بیگ کو ایک ہجوم کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔  
اسی طرح اگست کے مہینے میں ہی دو خواتین کو رکشے پر جاتے ہوئے ہراساں کیا گیا۔ جبکہ اسی مہینے میں چوہنگ کے علاقے میں ماں بیٹی کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
ان تمام واقعات میں پولیس نے مقدمات تو فوری طور پر درج کیے البتہ تاہم ابھی تک ان مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش نہیں کیے جا سکے۔
لاہور کے ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر رائے مشتاق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ٹک ٹاکر خاتون عائشہ بیگ کے کیس میں جیل میں شناخت پریڈ کے دوران کل چھ افراد کی نشاندہی کی گئی۔
’پولیس نے گرفتاریاں تو بہت کی تھیں لیکن ان افراد کو شناخت کرنا ایک پیچیدہ عمل تھا۔ جن چھ افراد کو شناخت کیا گیا تھا ان میں ایک کو پولیس رپورٹ میں بے قصور لکھا گیا تھا کہ وہ موقع پر موجود نہیں تھا۔ باقی پانچوں میں سے چار نے اپنی ضمانتوں کی درخواست دی جن میں سے عدالت نے دو ملزمان کی ضمانت منظور کر لی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دو کی درخواست خارج کر دی۔ ایک ملزم نے سرے سے ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع ہی نہیں کیا۔ ابھی پولیس نے مقدمے کا حتمی چالان عدالت میں پیش نہیں کیا۔‘ 
رکشے میں ہراساں کی جانے والی خواتین کے ملزم کو بھی پولیس نے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا لیکن اس مقدمے میں بھی ابھی تک چالان پیش نہیں ہوسکا۔
ترجمان لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس نے اپنی تحقیقات تقریباً مکمل کر لی ہیں، جلد ہی چالان بھی عدالت میں پیش کر دیے جائیں گے۔

مقدمات درج کرنے کے باوجود چالان عدالتوں میں پیش نہیں کیے جاتے۔ فوٹو اے ایف پی

ماں بیٹی سے ریپ کرنے والے ملزمان کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا،ان کا چالان بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا جا سکا۔  
فوجداری مقدمات کے وکیل اور سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ سمجھتے ہیں کہ چالان میں تاخیر ایک مستقل انتظامی مسئلہ ہے۔
’بہت کم کیس آپ کے سامنے ہوں گے جن میں پولیس نے 14 دن کے اندر چالان مکمل کر کے عدالت میں پیش کیا ہو۔ تفتیش مکمل کر کے چودہ دن کے اندر چالان جمع کروانا پولیس اور پراسیکیوشن پر فرض ہے۔‘
اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ’چالان جب تک جمع نہیں ہو گا مقدمے کا ٹرائل شروع نہیں ہو سکتا نہ ہی فرد جرم عائد ہو سکتی ہے۔ قانون میں تو کسی قسم کی رعایت نہیں ہے البتہ پولیس کا عمومی رویہ یہی ہوتا ہے کہ چھ چھ مہینے تک چالان عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیے جاتے۔‘ 
ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر رائے مشتاق سمجھتے ہیں کہ تفتیش اور چالان کا کام پولیس کا ہے ’پراسیکیوشن کا رول تو تفتیش کے مکمل ہونے کے بعد اور فائل عدالت میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ‘
ان کے بقول تفتیش میں جو تکنیکی جھول رہ جاتے ہیں، اسے پراسیکیوشن نے ٹھیک کرنا ہوتا ہے۔ جتنے بھی مقدمے عدالتوں میں نامکمل تحقیقات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں پراسیکیوشن عدالت کے روبرو تفتیشی افسران پر زور دیتی ہے کہ چالان جلد پیش کیا جائے۔‘

شیئر: