پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اگست کے مہینے میں پے در پے ایسے واقعات پیش آئے جن میں خواتین کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔
سب سے زیادہ جس واقعے کی بازگشت سنائی دی وہ مینار پاکستان پر 14 اگست کو ہونے والا واقعہ تھا جس میں ایک خاتون ٹک ٹاکر عائشہ بیگ کو ایک ہجوم کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔
اسی طرح اگست کے مہینے میں ہی دو خواتین کو رکشے پر جاتے ہوئے ہراساں کیا گیا۔ جبکہ اسی مہینے میں چوہنگ کے علاقے میں ماں بیٹی کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
ان تمام واقعات میں پولیس نے مقدمات تو فوری طور پر درج کیے البتہ تاہم ابھی تک ان مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش نہیں کیے جا سکے۔
مزید پڑھیں
-
خواتین کو ہراساں کرنا سنگین جرم ہے ، صدر علویNode ID: 402966
-
خواتین کو گڈ مارننگ میسیج اور چائے کی دعوت بھی ہراسگیNode ID: 408071
-
جنسی ہراس کا کیس: کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو نوٹسNode ID: 530496
لاہور کے ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر رائے مشتاق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ٹک ٹاکر خاتون عائشہ بیگ کے کیس میں جیل میں شناخت پریڈ کے دوران کل چھ افراد کی نشاندہی کی گئی۔
’پولیس نے گرفتاریاں تو بہت کی تھیں لیکن ان افراد کو شناخت کرنا ایک پیچیدہ عمل تھا۔ جن چھ افراد کو شناخت کیا گیا تھا ان میں ایک کو پولیس رپورٹ میں بے قصور لکھا گیا تھا کہ وہ موقع پر موجود نہیں تھا۔ باقی پانچوں میں سے چار نے اپنی ضمانتوں کی درخواست دی جن میں سے عدالت نے دو ملزمان کی ضمانت منظور کر لی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دو کی درخواست خارج کر دی۔ ایک ملزم نے سرے سے ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع ہی نہیں کیا۔ ابھی پولیس نے مقدمے کا حتمی چالان عدالت میں پیش نہیں کیا۔‘
رکشے میں ہراساں کی جانے والی خواتین کے ملزم کو بھی پولیس نے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا لیکن اس مقدمے میں بھی ابھی تک چالان پیش نہیں ہوسکا۔
ترجمان لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس نے اپنی تحقیقات تقریباً مکمل کر لی ہیں، جلد ہی چالان بھی عدالت میں پیش کر دیے جائیں گے۔
