Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران سے ’نمٹنے کے لیے‘ امریکہ اور اسرائیل کا ’پلان بی‘

امریکی وزیر خارجہ اینتونی بلنکن نے کہا کہ ’ہم ایران کی جانب سے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہر آپشن پر غور کریں گے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ اور اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایمانداری سے مذاکرات کی طرف نہیں لوٹتا تو وہ اس سے نمٹنے کے لیے’پلان بی‘ سوچ رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اے پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینتونی بلنکن اور اسرئیلی وزیر خارجہ یائیر لاپید کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ’دیگر آپشنز‘ پر بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ یہ آپشنز کیا ہیں تاہم ایسے بہت سے غیرسفارتی طریقے ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے جیسے کہ پابندیوں کا دائرہ وسیع کرنا۔
اسرائیل کبھی بھی جوہری معاہدے کا فریق نہیں رہا اور اس کے سابق وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اس معاہدے کےمخالف رہے ہیں۔
بلنکن اور لاپید کا یہ بیان متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران سامنے آیا ہے۔
تینوں وزرائے خارجہ نے ’ابراہم اکارڈ‘ نامی معاہدے کا دائرہ وسیع کرنے پر اتفاق کیا۔
ابراہم اکارڈ نامی معاہدہ ٹرمپ کے دور حکومت میں طے پایا تھا جس کے تحت اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات معمول پر لائے گئے تھے۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ویانا میں امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی طرف واپسی کے لیے تیار ہے تاہم ایران نے ابھی تک کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔

اینتونی بلنکن نے کہا ہے کہ اگر ایران اپنا رویہ نہیں بدلتا تو ہم دیگر آپشنز کی طرف جانے کے لیے تیار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایران اپنی جوہری سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے جسے معاہدے میں محدود کرنے کا کہا گیا تھا۔
بلنکن نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی کہ ایران کے لیے معاہدے میں واپسی کا راستہ بند ہو رہا ہے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی تاریخ نہیں بتائی کہ (معاہدے میں واپسی کے لیے) کب بہت دیر ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’وقت گزرتا جا رہا ہے۔ اگر ایران اپنا رویہ نہیں بدلتا تو ہم دیگر آپشنز کی طرف جانے کے لیے تیار ہیں۔‘
بلنکن نے کہا کہ ’ہم ایران کی جانب سے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہر آپشن پر غور کریں گے اور ہمارا خیال ہے کہ سفارتکاری ایسا کرنے کا سب سے موثر طریقہ ہے لیکن اس کے لیے دونوں کی شمولیت ضروری ہے اور ہم نے ایران کی طرف سے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دیکھی۔‘
لاپید نے کھل کر ایران پر تنقید کرتے ہوئے اسے خبردار کیا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ضرورت پڑی تو عسکری طاقت کا بھی استعمال کرے گا۔‘

شیئر: