Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی فوج کی غیرملکی سفارتی وفد پر ’انتباہی فائرنگ‘، تحقیقات کا مطالبہ

20 ممالک کے سفارت کاروں پر مشتمل وفد بدھ کو مغربی کنارے کے علاقے میں پہنچا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی فوج نے غیرملکی سفارت کاروں کے مغربی کنارے کے دورے کے دوران ’انتباہی گولیاں‘ چلائیں، جس سے افراتفری پھیل گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کے روز ہونے والے واقعے کی بظاہر مذمت اسرائیلی فوج نے بھی کی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالاس نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ فائرنگ کے واقعے کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرے۔
دوسری جانب فلسطینی وزارت خارجہ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ ’جان بوجھ کر ایک سفارتی وفد کو براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔‘
ایک یورپی سفارتی کار کا کہنا ہے کہ یہ گروپ کئی مہینوں سے اسرائیلی کارروائیوں کے باعث ہونے والی تباہی کو دیکھنے کے لیے علاقے میں گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’وفد منظورشدہ راستے سے ہٹ کر ا رہا تھا، جس پر فوجیوں نے انتباہ کے طور پر گولیاں چلائیں، تاکہ وہ ایسے علاقے کی طرف نہ جائیں جہاں ان کو جانے کا اختیار نہیں۔‘
بیان کے مطابق واقعے سے ہونے والی تکلیف پر افسوس ہے، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ جنگ کے حوالے سے اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے، جہاں دو ماہ کی ناکہ بندی سے لوگ کھانے پینے کی اشیا سے محروم ہیں اور سخت پریشان ہیں۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد بیلجیئم نے اسرائل سے وضاحت طلب کی ہے۔
اسی طرح سپین نے سپین کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ دوسرے متاثرہ ممالک سے رابطے میں ہے تاکہ جو کچھ ہوا اس کے جواب میں مشترکہ طور پر ہم آہنگ طریقہ اختیار کیا جائے۔‘
اٹلی کے وزیر کارجہ انتونیو تاجانی نے روم میں اسرائیلی سفیر طلب کر کے واقعے پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور کہا کہ سفارت کاروں کو دھمکانے کی کارروائیاں ناقابل قبول ہیں۔
فرانس کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ بھی اسرائیلی سفیر کو طلب کرے گا جبکہ جرمنی کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ جوہن ویڈفل بھی ’بلااشتعال فائرنگ‘ کا واقعہ اپنے اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ اٹھائیں گے۔‘
مصر کا کہنا ہے کہ ’واقعہ تمام سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، جبکہ ترکی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کے قونصل خانے کا ایک ملازم بھی سفارت کاروں کے ساتھ موجود تھا۔
ترکی نے بھی فوری طور پر تحقیقات اور ذمہ داروں کو جواب دہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وفد کے ہمراہ موجود فلسطینی وزارت خارجہ کے سیاسی مشیر احمد الدیک نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے نے سفارتی وفد کو غزہ میں رہنے والوں کی زندگی کی ایک جھلک بھی دکھائی ہے۔
رپورٹ کے مطابق وفد میں برطانیہ، چین، مصر، فرانس، اردن، ترکی اور روس سمیت 20 سے زائد ممالک کے سفارت کار شامل تھے۔

 

شیئر: