Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے سوال پر وزیراعظم کا قہقہہ

پاکستان میں نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر تعطل اور اس حوالے سے مقامی اور سوشل میڈیا پر چلنے والی متضاد خبروں کے بعد سب نظریں وزیراعظم عمران خان پر مرکوز ہیں کہ وہ کب اور کسے اس اہم عہدے کے لیے چنتے ہیں۔
ایسے میں جمعرات کو طلب کیے جانے والا قومی اسمبلی کا اجلاس خاصا اہم بن گیا تھا کیونکہ اس میں وزیراعظم عمران خان کی شرکت کا بھی امکان تھا۔ اجلاس سے قبل حکمران اتحاد کے اجلاس کی صدارت کے لیے وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم نمبر ایک پہنچے تو وہاں موجود صحافیوں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ سب کا ایک ہی سوال تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر کب ہوگا؟ تاہم وزیراعظم قہقہہ لگاتے ہوئے اجلاس میں چلے گئے۔
حکمران اتحاد کے پارلیمانی ارکان کے اجلاس کے باہر تمام ارکان کے موبائل فون رکھے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اجلاس میں ہونے والی گفتگو کتنی اہم ہے۔
طویل عرصے کے بعد اس طرح کے اجلاس کے باہر صحافیوں کی اتنی گہما گہمی تھی۔ عام طور پر ایسی ہلچل وزیراعظم کے انتخاب یا تحریک عدم اعتماد وغیرہ کے دنوں میں ہی نظر آتی تھی۔
صحافی بھی چہ مہ گوئیاں کر رہے تھے کہ ’آج وزیراعظم اجلاس میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے کیا کہنے والے ہیں۔‘
قبل ازیں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے یہ کہنا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی وزیراعظم کی اتھارٹی ہے اور پھر حکمران جماعت کے چیف وہپ عامر ڈوگر کی طرف سے نجی ٹی وی کے پروگرام میں وزیراعظم سے منسوب باتوں کی وجہ سے عام تاثر یہ ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ختم ہوا تو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تقریبا ہر وزیرنے بتایا کہ وزیراعظم کے مطابق سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے سب معاملات طے ہو جائیں گے مگر صحافیوں کی تشفی نہیں ہو رہی تھی۔
وزیر داخلہ شیخ رشید وزیراعظم کے ساتھ چلتے اجلاس سے باہر نکلے۔ وزیراعظم تو صحافیوں کی جانب سے اونچی آواز میں سوال پوچھنے کے باوجود جواب دینے کے لیے نہ رکے تاہم شیخ رشید صحافیوں کی طرف آ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں شیخ رشید بنیادی طور پر افغانستان کے بارے میں بریفنگ دی حالات کیسے ہیں ہم نے کیسے کرنا ہے مگر صحافیوں کی زبان پر ایک ہی سوال تھا ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر کیا پیش رفت ہوئی۔ 
شیخ رشید نے کہا کہ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے بتایا کہ سول ملٹری تعلقات ٹھیک ہیں ہماری اور آرمی کی بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے۔ ’ہم سیاسی طور پر سوچتے ہیں اور ان کا اپنا طریق کار ہے۔‘ تاہم جب ان سے پوچھا گیا اگر سب اچھا ہے تو پھر وزیراعظم نے کس کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا ہے؟  اس پر سینیئر سیاستدان نے تھوڑا سوچا اور کہا ’وہ وزیراعظم جا رہے ہیں ان سے پوچھ لیں۔‘
ایک خاتون صحافی نے پوچھا کہ یہ تعیناتی اتنی متنازع کیوں بنائی جا رہی ہے تو شیخ رشید بولے ’وزیراعظم سیاسی سطح پر سوچ رہے تھے ان کے کچھ سیاسی نظریات تھے دوسری طرف اصولی مسئلے تھے کہ آرمی کا طریق کار کیا ہے۔‘

پاکستان کے موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو پشاور کا کور کمانڈر تعینات کیا گیا ہے۔ فائل فوٹو

ان کی اس بات کے دوران جب ایک صحافی نے ان سے پوچھ لیا کہ کیا وزیراعظم اصولی موقف پر کھڑے ہیں تو شیخ رشید غصے میں آ گئے اور قدرے جھنجھلاہٹ سے صحافی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’ڈونٹ آسک سلی کوئسچن‘ (احمقانہ سوال مت پوچھو)۔
ایک اور سوال پر کہ کیا وزیراعظم ڈی جی آئی ایس آئی کے امیدواروں کا انٹرویو کریں گے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی بات پارلیمانی اجلاس میں نہیں ہوئی۔
دوسری طرف وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اجلاس سے باہر نکلے تو ان سے بھی وہی سوال ہوا تاہم انہوں نے افغان صورتحال پر طویل جواب دیا کہ اجلاس میں وزیراعظم نے افغانستان کی صورتحال اور ہمسایہ ہونے کے ناطے انسانی ہمدردی کے تحت اٹھائے گئے اقدامات، بین الاقوامی روابط، کے حوالے سے پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے مہنگائی کی وجوہات اس کے اندرونی اور بیرونی عوامل اور ان سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی پر بات چیت کی۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اہم قانون سازی  سامنے آ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ  تمام پارٹی ممبران کو ان تمام قوانین سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ دلائل کی بنیاد پر پارٹی کے نقطہ نظر کو آگے بڑھا سکیں۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے۔ فوٹو: اے پی پی

وزیرخارجہ نے آئی ایس آئی کے معاملے پر  براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے صحافی کو ٹوک دیا کہ مجھے اپنی بات کرنے دیں۔ پھر اشارتا کہا کہ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو ان کے لیے یہی کہوں گا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ اپوزیشن کی  یہ خواہشات کبھی پوری نہیں ہوں گی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو کچھ دن قبل وفات پانے والے مسلم لیگ ن کے ایم این اے پرویز ملک اور ممتاز سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے دعائیہ ریفرنس میں تبدیل ہو گیا اور موجودہ حالات پر کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ تاہم اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کی بدن بولی اب بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ حکومتی ارکان سے صحافیوں نے پوچھا آپ گھبرا تو نہیں رہے جس پر متعدد نے ہنستے ہوئے کہا کہ ابھی گھبرانے کا وقت نہیں آیا۔

شیئر: