Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اگر میرے سامنے کوئی چیف جسٹس اس طرح کی بات کرے تو فوراً اطلاع کروں گا‘

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان پیش نہیں ہوئے، ان کے بیٹے نے عدالت کو بتایا کہ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے (فوتو: ریڈیو پاکستان)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی اور الزامات پر مبنی خبر کے بعد لیے جانے والے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں فریقین کے جوابات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انصار عباسی، میر شکیل الرحمان، جسٹس رانا شمیم اور عامر غوری کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوموار کو جنگ گروپ میں چھپنے والی اس خبر کا نوٹس لیا تھا جس میں گلگت بلتسان کے چیف جسٹس رانا شمیم کی جانب سے لندن میں نوٹرائز کرائے گئے حلف نامے کا ذکر تھا جس میں مبینہ طور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے قبل ضمانت نہ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
منگل کو سماعت شروع ہوئی تو جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن، ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی، ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری پیش ہوئے جبکہ رانا شمیم خود عدالت میں حاضر نہیں ہوئے، انکے بیٹے کا کہنا تھا کہ انکے والد اپنے بھائی کی وفات کے باعث پیش نہیں ہوئے۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ 'وہ بوجھل دل سے کہہ رہے ہیں کہ وہ آزادی صحافت کے حامی ہیں تاہم اس خبر میں ملک کے ایک بڑے اخبار کی جانب سے اس عدالت پر شکوک و شہبات پیدا کیے گئے ہیں۔'
انہوں نے میر شکیل اور دیگر سے مخاطب ہو کر کہا کہ 'آپ کو ریٹایرڈ جج یا ریٹائرڈ چیف جسٹس کی توہین پر عدالت نہیں بلایا گیا بلکہ اس عدالت پر شکوک و شہبہات پیدا کرنے پر طلب کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور اخبار میں فرق ہے کیونکہ اخبار میں ادارتی کنٹرول ہوتا ہے۔'

اپنے سارے ججز پر مکمل اعتماد ہے: چیف جسٹس 

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عوام کو آزادی کے ساتھ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ یہاں کے سارے ججوں کی ذمہ داری میری ہے۔ میں خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔

رپورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے قبل ضمانت نہ دینے کی ہدایت کا الزام لگایا گیا تھا۔ (فوٹو: اےا یف پی)

'مجھے اس عدالت کے ہر جج پر اعتماد ہے۔ اگر میں مطمئن نہ ہوتا تو کبھی توہین عدالت کی کاروائی شروع نہ کرتا۔'
عدالت نے میر شکیل الرحمن کو خبر پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ عینک نہیں لائے جس پر عدالت کی ہدایت پر انصار عباسی نے ہیڈ لائن اور خبر پڑھ کر سنائی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ نے خبر میں لکھا کہ یہ حلف نامہ لندن میں نوٹرائزڈ ہے؟ اس کے قانونی نتائج ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'خبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ پر شکوک و شہبات پیدا کیے گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ پر الزام ہے۔'
عدالت نے پوچھا کہ آپ کو پتا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کب (نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کا) فیصلہ جاری کیا تھا؟ 17 جولائی کو کیس کی سماعت ہوئی اور اس وقت میں اور جسٹس عامر فاروق ملک میں ہی نہیں تھے بلکہ ملک سے باہر چھٹی پر تھے۔ جبکہ  جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اپیل سن رہے تھے جو ملک کے بہت محترم جج ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست کنندگان کے وکیل خواجہ حارث، امجد پرویز، عائشہ حامد اور سعد ہاشمی جیسے معزز وکلا تھے اور انہوں نے انتخابات کے بعد کی تاریخ ملنے پر اعتراض کیوں نہیں کیا تھا؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ عدالت اسی دن ضمانت نہیں دیتی پھر بھی عدالت نے بہت جلد سماعت کی تاریخ دی تھی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'یہ میرا احتساب ہو رہا ہے۔ جس جج کا نام آپ نے خالی چھوڑ دیا اس سے پوری عدالت پر سوال اٹھے۔'
'اس عدالت پر لوگوں کا اعتماد ہٹانے کے لیے سکینڈل بننا شروع ہو گئے۔ سارے حقائق جانے بغیر خبر دے دی گئی آپ نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ سے کیوں نہیں چیک کیا۔'
انہوں نے ریمارکس دئیے کہ میں چیف جسٹس ہوں اگر میرے سامنے کوئی چیف جسٹس اس طرح کی بات کرے (جس طرح کی مبینہ طور پر جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس رانا شمیم کے سامنے کی) تو میں فورا تحریری طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو اطلاع کروں گا۔
'یہ عجیب بات ہے کہ اب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو تو اس طرح کا مشکوک حلف نامہ آ گیا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ آپ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ اس عدالت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
جسٹس رانا شمیم کی عدم پیشی پر چیف جسٹس نے سوال کیا تو انکے بیٹے احمد حسن جو خود بھی وکیل ہیں نے بتایا کہ انکے والد اپنے بھائی کی وفات کیو جہ سے سوگوار ہیں اور چند دن بعد خود پیش ہوں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کو خود پیش ہونا ہے۔ اس کیس سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔
رانا شمیم کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت نوٹس جاری کر رہی ہے تو ایک نوٹس اور جاری کرے جو کہ سینیٹر فیصل واوڈا نے کل اول فول باتیں کی ہیں ان کو بھی نوٹس دیں۔

کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا کے خلاف الگ درخواست دیں انہیں اس کیس میں نہیں بلائیں گے۔

حلف نامہ بظاہر جھوٹا ہے

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'یہ مفروضہ ہے کہ یہ حلف نامہ جھوٹا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل بتائیں کہ حلف نامہ جھوٹا ہو تو اس کے کیا نتائج ہیں؟'
اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ رانا شمیم کے بھائی چھ نومبر کو فوت ہوئے اس کے بعد وہ لندن گئے اور حلف نامہ جمع کروایا اور آج پیش نہیں ہورہے کہ انکے بھائی کی ڈیتھ ہوئی ہے۔ جس پر انکے بیٹے کا کہنا تھا کہ رانا شیمیم بیرون ملک تھے تو ان کو معلوم ہوا کہ انکے بھائی کی وفات ہو گئی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'سب کو چیلنج ہے اگر آپ ایک ذرا سا بھی ثبوت لے آئیں کہ اس کورٹ کا کوئی جج کہیں سے ہدایت لیتا ہے تو میں ذمہ دار ہوں گا۔'

عدالت کی عزت کے لیے خبر دی پیشہ ورانہ تقاضے پورے کیے: انصار عباسی

عدالت میں بات کرتے ہوئے ایڈیٹر دی نیوز انصار عباسی کا دلائل میں کہنا تھا کہ 'حلف نامے کی خبر میں نے دی۔ میں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کیں اور ایک چیف جج نے ایک چیف جسٹس کے خلاف حلف نامہ جمع کروایا وہ کوئی عام آدمی نہیں تھے اس لیے میں نے دونوں سے موقف لے کر خبر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدلیہ کی عزت کے لیے خبر دی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے عدالت کی عزت کے لیے نہیں کیا۔'

صحافی انصار عباسی اور اشاعتی ادارے کے مالک میر شکیل الرحمان عدالت میں پیش ہوئے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انصار عباسی کا کہنا تھا کہ میں ایک صحافی کے طور پر صرف ایک پیغام رساں ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'آپ ایک پیغام رساں نہیں ہیں۔ اگر کوئی میرے خلاف حلف نامہ دے دے تو آپ چلائیں گے۔ کیا برطانیہ میں گارڈین اخبار ایسا شائع کرے گا۔'
انصار عباسی کا کہنا تھا کہ 'اگر عدالت نے کارروائی کرنی ہے تو انکے خلاف کریں وہ پوری ذمہ داری لیتے ہیں میر شکیل اور غوری صاحب کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔'
'آپ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں مگر عدلیہ کی عزت کے لیے اس واقعے کی بھی انکوائری ہونی چاہیے۔'
عدالت نے فریقین کو نوٹس دیتے ہوئے سات دن میں جواب جمع کروانے کا حکم دیا اور سماعت 10 دن کے لیے ملتوی کر دی۔ کیس کی اگلی سماعت 26 نومبر کو ہوگی۔
چیف جسٹس نے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ مفروضہ یہ ہے کہ حلف نامہ جھوٹا ہے یہ تین سال بعد آیا ہے اور اس میں عدالت پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
عدالت نے معاونین بھی نامزد کردیے جن میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر، سپریم کورٹ کے وکیل فیصل صدیقی اور ماہر قانون ریما عمر شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل یا پھر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد توہین عدالت کی کارروائی میں استغاثہ کا کردار ادا کریں گے۔

شیئر: