Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نور مقدم کا دو بار پوسٹ مارٹم ہوا، رپورٹ میں قتل کے وقت کا ذکر نہیں‘

ملزم ظاہر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جج صاحب کمرے میں پینے کا پانی نہیں، اس کا تو کوئی بندوبست کر لیں۔‘ (فوٹو: سوشل میڈیا)
نور مقدم قتل کیس میں ملزمان کے وکلا اور پراسیکیوشن کی جانب سے متفرق درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں واقعے کی جگہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج لیک ہونے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے قانونی کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔  
ملزم طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج عطا ربانی کو درخواست میں استدعا کی کہ عدالت پیمرا کو ہدایات جاری کرے کہ اس کیس کی کسی بھی خبر کے نشر ہونے پر پابند عائد ہونی چاہیے۔
کمرہ عدالت میں کیا ہوا؟ 
بدھ کے روز نور مقدم قتل کیس میں استغاثہ کی جانب سے مزید دو گواہان پر جرح مکمل کر لی گئی ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں آج ایڈووکیٹ ملک امجد علی پیش ہوئے اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل ہونے کا دعویٰ کیا جس پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنا وکالت نامہ جمع کروا دیں۔ اس دوران مرکزی ملزم کو جب کمرہ عدالت میں لایا گیا تو ملزم نے وکالت نامے پر دستخظ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے وکیل کی مہارت دیکھ کر وکیل کروں گا، یہ میرے وکیل نہیں ہیں، میرے وکیل بیرسٹر ہیں، وہ آئیں گے، میں ان سے مشورہ کروں گا۔‘  
ایڈووکیٹ ملک امجد کے ایسوسی ایٹ کمرہ عدالت کے دروازے پر کھڑے ملزم کے قریب گئے اور انہیں بتایا کہ آپ کے ماموں سے ہماری بات ہوئی ہے اور انہوں نے ہمیں آپ کا وکیل مقرر کیا ہے۔  
اس دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے ظاہر جعفر کو کہا کہ ’یہ ایک تجربہ کار اور سینیئر وکیل ہیں اور آپ کے اہل خانہ نے ہی ان کو مقرر کیا ہے۔‘ 
جس پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ مجھے آپ کا مشورہ نہیں چاہیے، مجھے نہیں لگتا کہ آپ اس کیس میں مجھے ٹھیک گائیڈ کر رہے ہیں، یہ ایک سینیئر وکیل ہوں گے، میں ان سے بعد میں بات کر لوں گا۔‘

ملزم ظاہر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جج صاحب کمرے میں پینے کا پانی نہیں، اس کا تو کوئی بندوبست کر لیں‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

 
اسی اثنا میں جب عدالت نے ایڈووکیٹ امجد علی سے وکالت نامہ طلب کیا تو انہوں نے بتایا کہ مرکزی ملزم نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مرکزی ملزم نے دروازے پر کھڑے کھڑے انگریزی میں باآوازِ بلند کہا کہ ’میں نے ان کو اپنی وکالت کرنے سے انکار کر دیا ہے، میری کوئی نمائندگی نہیں کر رہا۔‘  
گواہان کے بیانات قلمبند ہونے کے دوران ملزم ظاہر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جج صاحب کمرے میں پینے کا پانی نہیں، اس کا تو کوئی بندوبست کر لیں۔‘
اس کے تھوڑی دیر بعد پولیس کی جانب سے مرکزی ملزم کو پانی کی بوتل دی گئی۔ 
عدالتی کارروائی کے دوران کمرے کے ایک کونے پر بیٹھے مرکزی ملزم کے والد ذاکر جعفر کے دوسرے بیٹے نے مختلف بینکوں کے 5 بلینک چیکس اور کچھ دستاویزات پر والد کے دستخط بھی لیے اور انہیں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز پڑھنے کو دیا۔
ٹرائل کے دوران کیا ہوا؟
عدالت میں استغاثہ کے گواہ اے ایس آئی دوست محمد نے بیان قلمبند کیا جس پر ملزمان کی وکیل کی جانب سے جرح کی گئی۔ اے ایس آئی دوست محمد نے عدالت کو بتایا کہ ذاکر جعفر کی گرفتاری کے وقت 59 ہزار نقدی اور 4 مختلف بینکوں کے اے ٹی ایم کارڈر قبضے میں لیے گئے تھے۔  
عدالت نے مقتولہ کا میڈیکل کرنے والی ڈاکٹر شازیہ نے بیان قلمبند کروایا۔ دوران جرح ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ میری نگرانی میں ڈاکٹر سارہ نے پوسٹ مارٹم کیا۔ اس پر ملزم کے وکیل اکرم قریشی نے کہا کہ ڈاکٹر شازیہ نے پوسٹ مارٹم خود نہیں کیا، اس لیے یہ گواہ نہیں ہو سکتی۔  
دوران جرح ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ مقتولہ کا دو بار پوسٹ مارٹم کیا جبکہ رپورٹ میں قتل کے وقت کا ذکر نہیں ہے۔  
وکلا کی جانب سے سوالات کرنے پر ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ 21 جولائی کو ڈاکٹر سارہ کی ڈیوٹی تھی، صبح 9 بجے پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا جبکہ جب لاش موصول ہوئی تھی تو ابتدائی طور پر ڈاکٹر عثمان نے پوسٹ مارٹم کیا تھا۔  
جب ان سے سوال کیا گیا کہ دوسرے پوسٹ مارٹم کے لیے کس سے اجازت لی گئی تھی تو ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ ’دوسرے پوسٹ مارٹم کے لیے کسی سے اجازت نہیں لی۔‘  
اس پر ملزمان کے وکلا کی جانب سے پوسٹ مارٹم رپورٹ پر ہی اعتراض اٹھایا گیا کہ اس رپورٹ میں نہ ہی قتل کے وقت کا ذکر ہے اور نہ ہی دوسری بار پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت لی گئی تھی۔

عدالت نے مقتولہ کا میڈیکل کرنے والی ڈاکٹر شازیہ نے بیان قلمبند کروایا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

ملزمان کے وکلا اور پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت میں متفرق درخواستیں اور بیان حلفی جمع کرایا گیا جس میں جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
سماعت کے اختتام پر طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے کہا کہ ہم اس معاملے پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ’میں نے کبھی اخبار کو انٹرویو دیا نہ ہی بیان دیا ہے، عدالت خود اس بات کا تعین کرے کہ کون ہے جو میڈیا کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس ویڈیو لیک ہونے کا کسے فائدہ ہوا ہے۔‘  
جج عطا ربانی نے کہا کہ ’میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن یہ معلوم ہے کہ کیسے فوٹیج لیک ہوئی اور کس نے کی، میں نے پولیس کو بھی کہا تھا کہ یہ فوٹیج لیک نہیں ہونی چاہیے۔‘
وکیل اکرم قریشی نے کہا کہ ’عدالت پیمرا کو ہدایت دے کہ اس کیس کے حوالے سے کوئی بھی خبر میڈیا پر نہیں آنی چاہیے۔‘  
ملزمان کے وکلا کی جانب سے سی سی ٹی وی کی مکمل فوٹیج فراہم کرنے کے لیے بھی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ وکلا کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کا کچھ حصہ فراہم کیا گیا ہے ہمیں مکمل فوٹیج دی جائے۔  
عدالت نے کہا کہ ان درخواستوں کو آئندہ سماعت میں دیکھ لیں گے۔ کیس کی مزید سماعت 24 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے مزید گواہان کو طلب کر لیا گیا ہے۔  

شیئر: