Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز تتلا کیس: ملزم پولیس افسر اور مقتول وکیل کی کہانی

7 اکتوبر 2020 کو لاہور کی ایک سیشن عدالت نے ایس ایس پی مفخرعدیل اور ان کے دوست اسد بھٹی پر قتل کی فرد جرم عائد کی۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)
سات فروری 2020 کو پاکستان کے میڈیا میں ایک اعلیٰ پولیس افسر ایس ایس پی مفخر عدیل کے غائب ہونے کی خبر گردش کرنا شروع ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور خبر بھی چلی کہ سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہباز تتلا بھی غائب ہیں۔    
پولیس نے دونوں کے لاپتا ہونے کا مقدمہ درج کیا اور ان کی تلاش شروع کی۔ لیکن ان دونوں مقدمات کے تفتیش کاروں کو جلد اندازہ ہو گیا کہ یہ مقدمات گمشدہ ہو جانے والے دوسرے افراد کی طرح کے نہیں ہیں اور گم ہونے والے دونوں افراد کا آپس میں کچھ تعلق ہے۔
پولیس نے دونوں واقعات کو ملا کر دیکھنا شروع کیا تو انکشاف ہوا کہ غائب ہونے والے دونوں افراد ایک دوسرے کے جگری دوست تھے اور ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا ہے۔ 
صرف قتل ہی نہیں کیا بلکہ اس کی لاش کو تیزاب میں جلا کر پگھلا بھی دیا۔
مزید تفتیش پر معلوم ہوا کہ قتل کرنے والے پولیس افسر مفخر عدیل ہیں جنہوں نے واردات کے لیے لاہور کے علاقے فیصل ٹاون میں ایک گھر خصوصی طور پر کرائے پر لیا اور چھ فروری 2020 کی شام کو اس گھر میں پہلے انہوں نے شہباز تتلا کو قتل کیا اور پھر ان کی لاش کو تیزاب سے بھرے ڈرم میں ڈال کر پگھلا دیا۔  
پولیس کو اس واردات کے حقائق معلوم ہونے تک مفخر عدیل شمالی علاقہ جات فرار ہو چکے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنی کچھ شرائط کے بدلے گرفتاری پیش کر دی۔
اس مقدمے کے پراسیکیوٹر حبیب الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملزم نے لاش کو تیزاب میں پگھلا کر بہا دیا تھا اور اس کے بعد ثبوت مٹانے کے لیے فرش کو دھلوا دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پولیس کے عملے کو بھی استعمال کیا۔   
’اس مقدمے میں ان پولیس اہلکاروں کو بھی گواہ بنایا گیا ہے جن کو مفخرعدیل نے اس مکان کی صفائی کے لیے استعمال کیا۔ اس میں ایک پولیس کا خاکروب بھی شامل ہے۔‘
پولیس حقائق تک کیسے پہنچی؟ 
 یہ مقدمہ لاہور میں جرائم کے چند اہم مقدمات میں سے ایک ہے جس میں نہ صرف ایک اعلیٰ پولیس افسر ملوث ہے بلکہ جرم کا شکار ہونے والا شخص بھی قانون و انصاف سے منسلک ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز رہا ہے۔
پولیس حکام کو جب اپنے ایک سینیئر افسر کی گمشدگی کا پتا چلا تو بذات خود یہ ایک چونکا دینے والا واقعہ تھا جس کی وجہ سے نہ صرف اس فورس کی اپنی ساکھ داو پر لگی تھی بلکہ ایک اعلیٰ پولیس افسر کا اچانک غائب ہو جانا ملک کی دیگر سکیورٹی ایجینسیز اور حکومت کے لیے بھی تشویش ناک تھا۔  
جب ان کے ساتھ شہباز تتلا کی گمشدگی بھی نتھی ہوئی تو تفتیشی اداروں نے دونوں کے قریبی دوستوں سے پوچھ گچھ کا آغاز کیا۔
 انہی دوستوں میں ایک اسد بھٹی بھی تھے جو قاتل اور مقتول دونوں کے ہی قریب سمجھے جاتے تھے۔
تفتیش کے دوران اسد بھٹی نے جو بیان پولیس کو دیا اور جو اب مقدمے کی دستاویزات کا ایک اہم حصہ ہے، کے مطابق انہوں نے مفخر عدیل کے کہنے پر پلاسٹک ڈرم اور تیزاب کا بندوبست کیا جسے بعد ازاں ملزم نے شہباز تتلا کی لاش جلانے کے لیے استعمال کیا۔
اس کیس کے ایک تفتیش کار پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ واردات کے تیسرے دن ان پر حقائق واضح ہو گئے تھے۔ 
’اسد بھٹی نے دوران تفتیش تمام شکوک کو درست ثابت کر دیا اور واردات کی تمام تفصیلات بتا دیں۔‘  
پولیس نے ملزمان کو تیزاب بیچنے والے تاجر کو بھی حراست میں لے لیا۔
پولیس نے حقائق جاننے کے باوجود ان کو خفیہ رکھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ واقعے کے بارے میں معلومات عام نہ ہونے کی وجہ سے مفخر عدیل یہ سمجھتے ہوئے باہر آ جائیں گے کہ پولیس شاید کھوج نہیں لگا پائی۔  
ایس ایس پی مفخر عدیل کیسے گرفتار ہوا؟

مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق مفخر نے اعلیٰ ترین سطح کے پولیس افسران سے خود رابطہ کیا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

پولیس کی یہ خوش فہمی جلد ہی ختم ہو گئی کہ ملزم خود ہی باہر آ جائے گا۔
تفتیشی ٹیم کے رکن کے مطابق جب کافی انتظار کے بعد بھی ملزم کے سامنے آنے کے امکانات نظر نہیں آئے تو پولیس حکام نے فیصلہ کیا کہ مقدمے کے حقائق کی تشہیر کر کے پوری قوت سے ملزم کا پیچھا کیا جائے اور وہ جہاں کہیں بھی ہو اس کو گرفتار کر لیا جائے۔
یہ فیصلہ ہوتے ہی پولیس نے اسد بھٹی کی گرفتاری ظاہر کر دی اور اپنا روایتی طریقہ استعمال کرتے ہوئے مفخر عدیل کے بیٹے اور والدین کو حراست میں لے لیا۔ جس کے بعد مارچ کے وسط میں ملزم سامنے آ گیا۔
مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق مفخر نے اعلیٰ ترین سطح کے پولیس افسران سے خود رابطہ کیا اور گرفتاری دینے کی پیش کش کی۔ لیکن ایک عجیب شرط رکھی کہ اس کی گرفتاری کے بعد تحقیقاتی ٹیم ان پر تشدد نہیں کرے گی۔ افسران کی یقین دہانی کے بعد ملزم نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
 
پولیس افسر اپنے جگری دوست کا قاتل  کیوں بنا؟ 
دو بہترین دوستوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے درمیان آخر ایسا کیا ہوا کہ نوبت ایک کے قتل ہونے تک جا پہنچی۔ اور قانون کے ایک رکھوالے نے اپنے ہی دوست کو قتل کرنے کے لیے قانون ہاتھ میں لے لیا۔
یہ معمہ بھی ایس ایس پی مفخر عدیل نے اپنی گرفتاری کے بعد خود ہی حل کیا۔ تفتیشی ٹیم کو دیے گئے ان کے پہلے بیان میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ شہباز تتلا نے ان کی ایک زوجہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔
ان کے تحریری بیان کے مطابق جو کہ اس وقت مقدمے کا حصہ ہے ان کا کہنا ہے ’میری دو بیویاں ہیں ایک بیوی کے ساتھ ایک دفعہ جھگڑا ہوا تو وہ روٹھ کر چلی گئی، اس کے بعد وہ سیدھی شہباز تتلا کو ملی۔ وہ اس غرض سے گئی تھی کہ وہ قریبی دوست ہونے کی وجہ سے صلح کی کوشش کر ے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ شہباز نے موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔‘    
پولیس کو دیے گئے اپنے تحریری بیان میں وہ کہتے ہیں کہ ’میری بیوی نے یہ بات واپس آ کر میری دوسری بیوی کو بتائی۔ جس کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ میری دوسری بیوی کو بھی ورغلانے کی کوشش کر چکا ہے۔
ان دونوں نے مجھے بتایا تو اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے بدلہ لینا ہے۔‘  
یہ بیان ایس ایس پی مفخر عدیل نے پولیس کے روبرو دیا تھا جس کو ہو بہو چلان کا حصہ بنا دیا گیا۔ تاہم عدالت میں فرد جرم عائد ہوتے وقت انہوں نے اس قتل کا سرے سے ہی انکار کر دیا۔  
قاتل پولیس افسر اور مقتول وکیل آپس میں کتنے گہرے دوست تھے؟

 مفخر عدیل اور شہباز تتلا کو ایک دوسرے کا بہت گہرا دوست تصور کیا جاتا تھا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

 ایس ایس پی مفخر عدیل اور حکومت پنجاب کے سابق وکیل شہباز تتلا کی دوستی کے چرچے ان دونوں کے قریبی حلقوں میں عام تھے۔ اور ان کو ایک دوسرے کا بہت گہرا دوست تصور کیا جاتا تھا۔
ایک پولیس افسر کے مطابق یہ دونوں شہر کی دعوتوں اور پارٹیز میں اکھٹے آتے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کی گاڑیاں استعمال کرنا اور ایک دوسرے کے دفاتر میں بھی ان کا آنا جانا تھا۔ اس واردات سے دو مہینے قبل دونوں نے بہت زیادہ وقت اکھٹے گزارا۔ مفخر عدیل نے فیصل ٹاؤن کے علاقے میں جو گھر کرائے پر لیا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے دن یہ اکھٹے ہوتے تھے۔
’اس کی گواہی گھر کے ملازمین جو مقدمے میں شامل تفتیش ہیں نے بھی دی۔‘
تاہم شہباز تتلا کے قریبی افراد کا کہنا ہے کہ یہ گہری دوستی کی کہانی مقدمے پر اثر انداز ہونے کے لیے گھڑی جا رہی ہے۔ اور شہباز تتلا کے مفخر عدیل سے اتنے قریبی مراسم نہیں تھے۔  
مقدمے کے پراسیکیوٹر حبیب الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقدمے کی کارروائی مناسب انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور  اب تک کل 32 میں سے 15 گواہان کی گواہیاں اور جرح مکمل ہو چکی ہے۔ اب صرف سرکاری گواہان باقی ہیں۔  
مقدمے میں کب کیا ہوا؟
اس پراسرار  قتل سے متعلق پہلی باقاعدہ اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس وقت موصول ہوئی جب فروری 2020 کو لاہور کے  تھانہ نصیرآباد میں سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہباز تتلا کے غائب ہونے کا مقدمہ درج کروایا گیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کیا تو شہباز تتلا کے آخری رابطے ایس ایس پی مفخرعدیل کے ساتھ سامنے آئے جس کے بعد مفخر سے بھی اس حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔
 تاہم 10 فروری کو ایس ایس پی مفخر عدیل بھی اچانک غائب ہو گئے، ان کے غائب ہونے کا مقدمہ بھی تھانہ نصیر آباد میں درج کر لیا گیا۔
ایک مہینہ غائب رہنے کے بعد 10 مارچ کو بالآخر انہوں نے شہباز تتلا مسنگ کیس میں پولیس کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ پولیس نے ان سے 14 روز تک تفتیش کی اور انہیں 25 مارچ کو تفتیش مکمل ہونے پر جیل بھیج دیا گیا۔
اسی دوران پولیس نے چالان (مقدمے کی رپورٹ) تیار کیا اور 8 مئی کو اپنی حتمی تفتیش عدالت کے روبرو پیش کر دی۔

پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کیا تو شہباز تتلا کے آخری رابطے ایس ایس پی مفخرعدیل کے ساتھ سامنے آئے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

7 اکتوبر 2020 کو لاہور کی ایک سیشن عدالت نے ایس ایس پی مفخر عدیل اور ان کے دوست اسد بھٹی پر قتل کی فرد جرم عائد کی جس کے بعد سے اس مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔
وکلا اور پولیس افسران کے مطابق ابھی 17 گواہان کی گواہیاں ریکارڈ ہونی باقی ہیں جس کے بعد عدالت مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔   
فوجداری مقدمات کے ماہر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری شمیم ملک کے مطابق اب اس مقدمے میں صرف تکنیکی گواہوں کے بیانات باقی ہیں جو ہر مقدمے کا لازمی جزو ہیں۔
’کئی مقدمات کی نسبت اس کیس کا ٹرائل بہت تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان میں عام فوجداری ٹرائل اڑھائی سے تین سال میں مکمل ہوتا ہے جبکہ اس کیس میں یہ ڈیڑھ سال میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔‘

شیئر: