Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنسی جرائم کے ملزمان کا رجسٹر بنے گا، مجرموں کو نامرد کرنے کی شق خارج

نئے قانون کے تحت ٹرائیل مکمل ہونے پر جرمانے کا کچھ حصہ زیادتی کے شکار افراد کو بطور معاوضہ دیا جائے گا۔ (فوٹو: سینیٹ آف پاکستان)
پاکستان کی پارلیمان سے منظور شدہ نئے قانون کے تحت ناصرف ریپ کے ملزمان کا خصوصی عدالتوں کے ذریعے جلد ٹرائیل ہو گا بلکہ نادرا ان کی فہرست بھی مرتب کرے گا جسے عدالتوں اور تفتیشی اداروں کے علاوہ وزیراعظم کے حکم پر عام بھی کیا جا سکے گا۔ تاہم اس قانون میں ریب کے مجرموں کو نامرد کرنے کی شق شامل نہیں۔
بدھ کو پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور ہونے والے انسدادِ زیادتی قانون کے مطابق پاکستان میں عورتوں اور بچوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے خاتمے کے لیے خصوصی سیل بھی بنائے جائیں گے جن کے ذریعے پولیس، طبی عملہ اور ضلعی انتظامیہ مل کر ریپ کے واقعات کی جلد تفتیش کریں گے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
منظور کیے گئے انسداد زیادتی قانون میں ریپ کے مجرمان کو کیمیائی طور پر نامرد کرنے کی شق شامل نہیں تھی۔ پارلیمانی سیکر ٹری برائے قانون ملیکہ بخاری نے بدھ کو ایک ترمیم کے ذریعے اس شق کو بل سے نکالنے کی تحریک پیش کی تھی۔
جنسی مجرموں کا ڈیٹا بینک
اردو نیوز کے پاس موجود بل کے مسودے کے مطابق نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن سینٹر (نادرا) ملک بھر میں جنسی جرائم کے مجرموں کا ریکارڈ کا رجسٹر بنائے گا۔
قانون کے مطابق قائم کی گئی ایک خصوصی کمیٹی وقتاً فوقتاً نادرا سے ایسی فہرست بنانے کا کہے گی جس میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کے نام اور ان کے جرائم کی تفصیل ہو گی۔
قانون کے مطابق یہ فہرست نادرا صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالت کو فراہم کرے گی تاہم وزیراعظم کے حکم پر جنسی مجرموں یا ملزمان کا یہ ڈیٹا کسی بھی شخص یا ادارے کو وسیع عوامی مفاد میں فراہم کیا جا سکے گا۔
خصوصی حکومتی کمیٹی نادرا کو ہر جنسی جرم کی الگ الگ فہرست بنانے کی ہدایت دے گی۔
ریپ کیسز کے لیے خصوصی عدالتیں اور طاقتور کرائسس سیلز
اردو نیوز کے پاس موجود بل کے مسودے کے مطابق صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے ملک بھر میں ریپ کے کیسز کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کریں گے اور ان میں تعینات ججوں کو سیشن جج کے اختیارات دیے جائیں گے۔

پولیس تھانوں کو ہدایت ہو گی کہ کسی ریپ کیس کی اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے سیل کو اطلاع دیں تاکہ وہ کاروائی آگے بڑھا سکیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ کیسز میں ریپ کے شکار افراد کے تحفظ کے لیے صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے ریپ کے کیسز ملک کی کسی بھی خصوصی عدالت میں بھیج سکیں گے چاہے وہ جرم کے وقوعے کے علاقے میں قائم نہ بھی ہو۔ زیادتی کے ملزمان کے تیز ٹرائل کرنے اور جنسی زیادتی کے کیسز کے چار ماہ میں فوری اور ترجیحی بنیادوں پر فیصلہ کرنے کے لیے حکومت خصوصی عدالتوں کے لیے فنڈ بھی قائم کرے گی۔
بل کے مطابق وزیراعظم انسداد ریپ کے لیے کرائسس سیلز تشکیل دیں گے جس میں ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر، سرکاری ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹینڈنٹ اور ڈسٹرک پولیس آفیسر شامل ہو گا۔
یہ اینٹی ریپ سیل کسی بھی علاقے میں ریپ کے واقعے کی اطلاع ملتے ہی زیادتی کے شکار فرد یا افراد کا طبی معائنہ کرے گا، شواہد اکھٹے کرے گا اور فرانزک تجزیہ کر کے ایف آئی آر درج کروائے گا۔
پولیس تھانوں کو ہدایت ہو گی کہ کسی ریپ کیس کی اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے سیل کو اطلاع دیں تاکہ وہ کاروائی آگے بڑھا سکیں۔
ریپ کے شکار خواتین اور بچوں کو قانونی مدد لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی فراہم کرے گی اس کے علاوہ وکلا کا ایک پینل بھی منظور کیا جائے گا جو اس طرح کے کیسز میں مدد کرے گا۔۔

ریپ کے شکار افراد اور گواہوں کا تحفظ

نئے قانون کے تحت جنسی زیادتی کے شکار افراد، ان کے اہل خانہ اور گواہان کے تحفظ کے سرکاری سطح پر خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔ ان کو ناصرف پولیس کی طرف سے سیکورٹی فراہم کی جائے گی بلکہ ضرورت پڑنے پر محفوظ رہائش پر منتقل بھی کیا جائے گا اور مالی مدد بھی فراہم کی جائے گی جو اہل خانہ کو بھی دستیاب ہو گی۔
اس کے علاوہ ان کی شناخت کا تحفظ بھی کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر بیانات وغیرہ ویڈیو پر لیے جائیں گے۔

بل کے مطابق وزیراعظم انسداد ریپ کے لیے کرائسس سیلز تشکیل دیں گے۔ (فوٹو: اے پی پی)

ریپ کے شکار افراد کے کیسز کی تفتیش گریڈ سترہ کے افسران کریں گے اور ترجیحی طور پر خواتین افسران کو مقرر کیا جائے گا۔ زیادہ سنگین جرائم کی صورت میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے گی۔
 ٹو فنگر ٹیسٹ پر پابندی ہو گی اور ریپ کے شکار افراد کے کردار کے حوالے سے شواہد کو دفاع کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
ریپ کے ملزمان کا ٹرائیل ان کیمرا ہو گا اور صرف انہیں افراد کو سماعت کے دوران عدالت میں اجازت دی جائے گی جو کیس سے متعلق ہوں یا عدالت ان کی حاضری ضروری سمجھے۔
ریپ کے مقدامات کے لیے وزارت قانون ایک خصوصی کمیٹی قائم کرے گی جس کے ممبران بلامعاوضہ کام کریں گے۔ کمیٹی اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو اقدامات تجویز کر سکے گی۔ْ
عدالتیں مقدمات کا فیصلہ چار ماہ میں کریں گی اور خصوصی عدالتیں دو سے زائد دفعہ کیس کی سماعت ملتوی نہیں کر سکیں گی بلکہ دوسری دفعہ سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کرنے والا شخص اس کاروائی کے اخراجات ادا کرے گا۔
نئے قانون کے تحت ٹرائیل مکمل ہونے پر جرمانے کا کچھ حصہ زیادتی کے شکار افراد کو بطور معاوضہ دیا جائے گا۔
قانون کے مطابق ریپ کیسز میں جھوٹا مقدمہ درج کروانے والے افراد کو تین سال قید اور جرمانہ ادا کیا جائے گا اور اسی طرح تفتیش کرنے والے فرد کی جانب سے غلط تفتیش کی بھی یہی سزا ہو گی۔

شیئر: