Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس: سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے کی تحقیقات کا حکم

مدعی کے مرکزی وکیل شاہ خاور سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔ (فوٹو: ٹویٹر)
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس میں تین مختلف درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنادیا۔
عدالت نے پہلی درخواست میں شریک ملزمہ ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج کی فراہمی کی درخواست خارج کردی۔
 دوسری درخواست میں پراسیکیوشن کی دو نئے گواہ طلب کرنے کی درخواست منظور کرلی گئی جبکہ تیسری درخواست میں ڈی جی ایف آئی اے کو کیس کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
اس سے قبل نور مقدم قتل کیس میں ملزمان کے وکلا اور استغاثہ کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے کی انکوائری کروانے کی درخواست پر فیصلہ بدھ کو ہی محفوظ کر لیا گیا تھا۔
 بدھ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس کی سماعت اِن کیمرہ کی جائے اور عدالتی کارروائی کی کوریج پر پابندی کا حکم نامہ جاری کریں۔‘ 
ملزمان کی جانب سے مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے اور سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہونے سے متعلق انکوائری کرانے کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ 
سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ محمد جابر کا بیان قلمبند کیا گیا اور اس پر جرح مکمل کر لی گئی ہے۔  
کمرہ عدالت میں کیا ہوا؟  
اسلام آباد کی مقامی عدالت میں آج تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی کی درخواست پر سماعت جلد کی گئی جبکہ مدعی کے وکیل سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوسکے اور ان کی جگہ بابر حیات کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 سمتبر کو کیس کا 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا تھا (فوٹو:اے ایف پی)

 تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس سماعت کے دوران ملزمان کو سماعت کے اختتام پر کمرہ عدالت میں لایا گیا۔ آج کی سماعت میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے ایک اور وکیل پیش ہوئے تاہم گزشتہ سماعت کی طرح اس بار بھی مرکزی ملزم نے وکالت نامہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ مرکزی ملزم نے کہا کہ میں وکیل سے میٹنگ کے بعد اپنا وکیل مقرر کروں گا۔  
مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کی درخواست پر کمرہ عدالت میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور ذاکر جعفر سے ملاقات کرائی گئی۔ اس دوران والدہ عصمت آدم جی نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سے کچھ دیر گفتگو کی اس دوران عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال بھی موجود تھے جس کے بعد مرکزی ملزم کو کمرہ عدالت سے باہر لے جایا گیا۔ عصمت آدمی جی نے کچھ دیر اپنے شوہر ذاکر جعفر سے بھی ملاقات کی۔  
دوران سماعت کیا ہوا؟
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں وکیل اسد جمال کی جانب سے مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے سے متعلق دلائل دیے۔ وکیل اسد جمال نے کہا کہ ہمیں صرف کچھ منٹس کے کلپس ہی فراہم کیے ہیں، ملزمان کا حق ہے کہ مکمل فوٹیج فراہم کی جائے تاکہ انہیں دفاع کا موقع دیا جا سکے۔  

سماعت کے دوران ملزمان کو سماعت کے اختتام پر کمرہ عدالت میں لایا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

مدعی کے مرکزی وکیل شاہ خاور سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوسکے، ان کی جگہ مدعی کی جانب سے وکیل نثار بیگ اور بابر حیات سمور عدالت میں موجود تھے۔ 
استغاثہ کے گواہ کمپوٹر آپریٹر محمد جابر کا بیان قلمبند کیا گیا جس پر جرح مکمل کر لی گئی ہے۔  
ملزمان کے وکیل اکرم قریشی کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج ویڈیو وائرل ہونے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جائے وقوعہ کی فوٹیج وائرل ہونے سے کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ عدالت اس حوالے سے کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت اس کیس کو ان کیمرا رکھنے اور میڈیا کوریج پر مکمل پابندی کا حکم نامہ جاری کرے۔ 
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر بھی اکرم قریشی کی جانب سے نور مقدم قتل کیس کی میڈیا کوریج پر مکمل پابندی لگانے کی استدعا کی تھی۔  

ملزمان کے وکیل نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی (فوٹو: سکرین گریب)

عدالت نے دلائل سننے کے بعد متفرق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ کیس میں مزید گواہان کو بیان کے لیے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ کیس کی مزید سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ 
نور مقدم کیس میں اب تک 11 گواہان کے بیانات قلمبند کرائے جا چکے ہیں جن پر جرح مکمل کر لی گئی ہے جبکہ مزید 7 گواہان کی بیانات قلمبند کروانے باقی ہیں۔ 
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 سمتبر کو کیس کا 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ ملزمان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے 18 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم نامہ برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

شیئر: