Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آٹومیٹک پاکستان، عمار مسعود کا کالم

میڈیا کے جغادری اینکر، جہادی تجزیہ کار، جلالی تبصرہ نگاروں سے زیادہ اس آٹومیٹک نظام سے کوئی واقف نہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
نہ فزکس کے قوانین کی کوئی سدھ، نہ سائنس سے کوئی واقفیت، نہ کمپیوٹر کا شوق، نہ ٹیکنالوجی سے شغف، پھر بھی قوم کو اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ 74 برس میں پاکستان ایک آٹو میٹک ملک بن چکا ہے۔ 
عرف عام میں آٹومیٹک اس مشین کو کہتے ہیں جو خود کار ہو۔ اس کے پیچھے بے شک کوئی نادیدہ قوت ہو مگر اس قوت کو منصۂ شہود میسر نہ ہو۔ ایسی مشین جس کے سب پرزے خود بخود اس کی اطاعت میں آجائیں، مشین کا دھارا خودکار طریقے سے چلے۔
کوئی کل اختلاف کی کوشش نہ کرے، کوئی پرزہ اجتناب نہ کرے۔ بس سب کچھ آٹومیٹک ہو۔ بنا کسی کاوش کے بنا کسی کوشش کے ۔ سب پرزے راہ راست پر رہیں، غلطی کی گنجائش نہ ہو۔ مشین کی رفتار کسی بھی بیرونی عمل سے نہ رکے۔ کسی اندرونی قوت کا بھی مشین کی کارگزاری پر اختیار نہ ہو۔ پہیے کا چکر چلتا رہے۔ 
 آٹومیٹک کی اصطلاح  اسلامی جمہوریہ پاکستان پر صادق آتی ہے۔ اب سب کو پتا ہے کیا کرنا ہے، کیا ہونا ہے، کیوں ہونا ہے، کیسے ہونا ہے، کس جانب سے ہونا ہے۔ اب کوئی بات راز نہیں ہے۔ اب مخفی کچھ بھی نہیں ہے۔ سیاست میں اور جمہوریت میں یہ آٹومیٹک نظام ہم نے 74 برس کی کاوشوں سے حاصل کیا ہے۔ 
 سامنے کی سب باتیں ہیں۔ اب حکومت کیا کرسکتی ہے، کیا نہیں کر سکتی۔ یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کس کو وزیر لگا سکتی ہے، کسی کو مشیر تعینات کر سکتی ہے، خارجہ کے کون سے فیصلے حکومت کے اختیار میں ہیں کن سے اجتناب کی ضرورت ہے، کس چیز کی قیمت بڑھا سکتی ہے کس چیز کی قیمت سے نظر بچانا ضروری ہے، کس کے خلاف انتقامی کارروائی کر سکتی ہے، کس کو این آر او دے سکتی ہے، کس کے خلاف دشنام کا بازار گرم رکھنا ہے، کس کے بارے میں بات کرتے لہجہ نرم رکھنا ہے، کس بجٹ کا روک لینا ہے، کس بجٹ کو سرعت سے پاس کرنا ہے، کون سے قوانین پر بحث کرنی ہے، کون سے قوانیں کو سر جھکا کر پاس کرنا ہے،  کورونا کے دنوں میں کس کس کاروبار پر پابندی لگنی ہے اور کس کس کاروبار کو کھلی چھوٹ دینی ہے۔
یہ کوئی روز روز حکومت کو نہیں بتاتا۔ بس یہ اہل حکومت کو آٹومیٹک طریقے سے پتا چل جاتا ہے۔ 
یہی حال اپوزیشن کا بھی ہے۔ کب جلوس نکالنا ہے کب گھوڑے کو لگام دینی ہے، کب نعرہ حق بلند کرنا ہے، کب پسپائی اختیار کرنی ہے، کب عوام الناس کو مشتعل کرنا ہے، کب امن کا پیغام دینا ہے، کس کی موت پر دلدوز ٹویٹ کرنا ہے اور کس کے انتقال پر ہونٹوں کو سی لینا ہے۔ کب پی ڈی ایم کے اجلاس سے ولولہ انگیز اعلانات کرنے ہیں، کب آپس میں جھگڑنا ہے۔ کب بپھرے ہوئے عوام کو انقلاب کی نوید سنانی ہے، کب انقلاب کے خواب کو راکھ کرنا ہے، کب تحریک عدم اعتماد لانی ہے، کب استعفے دینے کا نعرہ لگانا ہے، کب وزیراعظم کو نشانہ بنانا ہے، کب وزرا کو ہدف بنانا ہے۔ یہ اپوزیشن کو کوئی نہیں بتاتا۔ بس خودکار نظام ہی ایسا ہے کہ سب کو پتا ہے کس نے کیا کہنا ہے، کہاں تک جانا ہے۔
انصاف کا در بھی اسی آٹومیٹک نظام کے تابع ہو گیا ہے۔ عدالتیں چھوٹی ہوں یا بڑی سب کو پتا ہے ان کو کیا کرنا ہے۔

صحافت، وکالت، عدالت اور سیاست میں کچھ ایسے ہیں جو اس آٹومیٹک نظام کو نہیں مانتے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

میڈیا کے جغادری اینکر، جہادی تجزیہ کار، جلالی تبصرہ نگاروں سے زیادہ اس آٹو میٹک نظام سے کوئی واقف نہیں۔ انہیں بنا بتائے سب سے پہلے پتا چل جاتا ہے، کون سی خبر لیڈ بنانی ہے اور کون سی خبر کو اندرونی صحفات پر ایک کالمی سرخی عنایت کرنی ہے، کون سا کالم دیکھے بغیر شائع کر دینا ہے اور کون سی تحریر پر قلم پھیرنا ہے، پروگراموں میں کن کو تبصرے کے لیے بلانا ہے، کن کو پس پشت ڈالنا ہے، کس خبر کو موضوع بنانا ہے، کس خبر سے پہلو بچانا ہے، کس بات کی خبر پر بریکنگ نیوز چلنی ہے کس بات پر خاموشی اختیار کرنی ہے۔ کب حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنا ہے کب مثبت رپورٹنگ کی چھتری تان لینی ہے۔ کس اینکر کو نوکری دینی ہے کس کس کو کو کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دینا ہے۔ یہ سب ہمارا جہاں دیدہ میڈیا جانتا ہے۔ کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔  
اب سب کو پتا ہے کہ اس مملکت میں جزا اور سزا کا ایک نادیدہ نظام بن چکا ہے۔ ایک خفیہ طریقہ منظور ہو چکا ہے۔ جو فیصلہ کرنا ہے کس کا معاشی قتل کرنا ہے، کس کو سرزنش کرنی ہے، کس کی ویڈیو نکالنی ہے، کس قید میں ڈالنا ہے، کس کو شمالی علاقہ جات کی سیر پر بھیجنا ہے اور کس کو ’مسنگ پرسن‘ بنانا ہے۔ 
آتومیٹک نظام میں ہزار خوبیاں سہی مگر ایک مسئلہ ہے اس نظام میں کچھ نئے کی گنجائش نہیں۔ چاہے وہ پرزہ ہو، نعرہ ہو یا نظریہ ہو۔ صحافت، وکالت، عدالت اور سیاست میں کچھ ایسے ہیں جو اس آٹومیٹک نظام کو نہیں مانتے۔ جو اپنی سمت خود متعین کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے اس نادیدہ نظام میں سزا تجویز کردی گئی ہے کیونکہ وہ انحراف کرتے ہیں، اجتناب کرتے ہیں۔ اختلاف کرتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات بس اتنی ہے کہ یہی چند ایک نیا نظام تخلیق کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہی چند ایک نیا آئین تخلیق کرنے پر فائز ہوتے ہیں۔ 

شیئر: