Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: بلدیاتی انتخابات، دیر آید درست آید

مقامی حکومتوں کے ساتھ دوہری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ملک میں جمہوریت کے ساتھ ان کا متضاد تعلق جڑ گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ان سطور کے شائع ہونے تک خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج سامنے آ چکے ہوں گے۔
پنجاب میں مقامی حکومت کے نئے قانون کو کابینہ سے منظوری کے بعد اسمبلی میں بھیجا جائے گا۔ وزیر اطلاعات کے مطابق اگلے سال کے شروع میں پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہو جائیں گے۔
سندھ میں مقامی حکومت کے قانون پر خوب ہنگامہ رہا اور اب صوبائی حکومت نے ترمیم شدہ قانون دوبارہ پیش کیا ہے۔ اس سب کے ساتھ یہ امید بندھی ہے کہ مقامی حکومتوں کا رکا ہوا سلسلہ شاید دوبارہ پٹری پر چڑھ جائے اور ضلعی حکومتیں جن کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے، وہ پھل پھول دینے لگیں۔
مقامی حکومتوں کے ساتھ دوہری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ملک میں جمہوریت کے ساتھ ان کا متضاد تعلق جڑ گیا ہے۔
جب ملک میں مارشل لا ہوتا ہے تو اقتدار عوام کے دروازے پر پہنچانے کی بات شروع ہو جاتی ہے مگر جب ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہوتا ہے، اور قومی اور صوبائی حکومتوں کے الیکشن ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی مقامی حکومتیں سرد خانے میں چلی جاتی ہیں۔
ایوب خان کے دور میں پہلی دفعہ بنیادی جمہوریتوں کی اصطلاح استعمال ہوئی اور ایک بی ڈی سسٹم کے نام کا نظام آیا۔
اس کے بعد ضیا دور میں 1979 میں مقامی حکومتوں کا قانون آیا اور پھر اس کے بعد مشرف دور میں ایک طاقتور قانون بھی آیا اور دو دفعہ الیکشن بھی ہوئے۔
ڈکٹیٹرشپ میں مقامی حکومتوں کی ترویج کی وجہ نظر آتی ہے۔ آمریت کے ادوار میں نچلی سطح پر سیاسی سرگرمیاں ’محفوظ‘ سمجھی جاتی ہیں۔

ایوب خان کے دور میں پہلی دفعہ بنیادی جمہوریتوں کی اصطلاح استعمال ہوئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی ماحول بھی قائم ہو جاتا ہے اور نظام کو کوئی خطرہ بھی لاحق نہیں ہوتا۔ ضرورت پڑنے پر سپورٹ بھی مل جاتی ہے۔
سیاسی دور میں یا تو مقامی انتخابات ہوتے نہیں اور اگر ہوں بھی تو اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ اس رجحان سے کوئی بھی پارٹی مبرا نہیں۔ پرانی پارٹیوں میں ن لیگ اور پی پی پی نے مقامی حکومتوں کے اختیارات باقاعدہ کم کیے اور حتی الوسع کوشش کی کہ وسائل اور اختیارات صوبائی سطح تک ہی رہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ 18 ترمیم سے فائدہ اٹھانے والی صوبائی حکومتیں آگے ضلعوں میں اقتدار منتقل کریں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اس کی یہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار حاصل کرنا سب کو اچھا لگتا ہے مگر اس میں شراکت سے ہر کوئی گریز کرتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور میں بھی بحالت مجبوری انتخابات کرائے گئے مگر میئر کراچی احتجاج کرتے ہی رہ گئے۔
ن لیگ کے تحت لاہور کے بھی ایک میئر تھے مگر شہباز شریف کے سایے تلے ان کا نام اور کام دونوں ہی کسی کا یاد نہیں۔
پی ٹی آئی کے باقی دعوں کے ساتھ مقامی حکومتوں میں بھی بلند و بانگ دعوے رہے ہیں۔ گراؤنڈ پر مگر خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔
سنہ 2018 کے بعد جب پنجاب اور وفاق میں بھی حکومت بنی، اس کے ساتھ ہی پنجاب میں بجائے اس کے کہ ایک مضبوط نظام تشکیل پاتا، پہلے سے موجود کمزور ضلعی حکومتیں بھی ختم کر دی گئیں۔
سنہ 2019 میں نئے قوانین اور ترامیم کی گئی مگر اس کے بعد بھی دو سال تک انتخابات کو ملتوی کیا گیا۔

جمہوری حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کا مقامی حکومتوں سے گریز البتہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اب بھی سپریم کورٹ کی مداخلت اور دباؤ کے بعد انتخابات کا اعلان کیا گیا مگر پنجاب کی حد تک اس میں ہر ممکن تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان تاخیری حربوں کے پیچھے بھی سیاسی وجوہات ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاسی کشتی شروع سے ہی سنبھل نہیں سکی۔ ایک کے بعد ایک ضمنی انتخاب میں ان کو شکست ہوئی۔
ڈسکہ، وزیر آباد، لاہور اور اب خانیوال میں ن لیگ نے میدان مارا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات تک میں بھی مقابلہ سخت رہا ہے۔
ایسے ماحول میں پورے پنجاب میں انتخابات وہ رسک ہے جو شاید پی ٹی آئی لینا نہیں چاہتی۔ دوسری وجہ اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اختلافات بھی ہیں۔ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے پرانے ماہر ق لیگ میں ہیں اور موقعے کی تلاش میں بھی ہیں کہ کس طرح اپنی سیاسی طاقت بڑھائیں۔
اتحادیوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بھی اب ڈھکے چھپے نہیں۔
تیسری وجہ اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہے جس کو پی ٹی آئی ہر صورت میں الیکشن کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔
اس لیے ابھی بھی پنجاب میں مقامی حکومتوں کا مستقبل خاص روشن نہیں ہے اور اس میں اپوزیشن کے عدم دلچسپی کا بھی واضح کردار ہے۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات ایک خوش آئند قدم ہے۔ دیر سے ہی سہی مگر نچلی سطح پر اقتدار ہمارے آئین اور جمہوریت کا تقاضا ہے۔
میئر کا براہ راست الیکشن بھی ملک میں پہلی بار ہو رہا ہے جو کہ ضلعی سطح پر ایک ذمہ دار اور خود مختار سیٹ اپ کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب شدہ میئر اپنے اختیارات کے بارے میں حساس بھی ہوگا اور جواب دہ بھی۔

ن لیگ کے تحت لاہور کے بھی ایک میئر تھے مگر شہباز شریف کے سایے تلے ان کا نام اور کام دونوں ہی کسی کا یاد نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ضرورت اس امر کی بھی ہے ترقی یافتہ ممالک کی طرح عوام کو بنیادی سہولتیں زیادہ سے زیادہ صوبائی حکومت سے نیچے ضلعی اور مقامی سطح پر منتقل کی جائیں۔
پنجاب اور سندھ میں اس کا اصل ٹیسٹ ہوگا جہاں پر دو بڑے شہر براہ راست صوبائی حکومتیں چلا رہے ہیں۔
خصوصاً سندھ کی حکومت پر تو مستقل یہی تنقید ہوتی ہے کہ جمہوری اقدار کے پرچار کے ساتھ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کو جمہوری حق دینے کے حق میں نہیں ہے۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پنجاب اور سندھ دونوں جگہ اقتدار میں موجود پارٹیاں مضبوط اور موثر مقامی حکومتیں قائم کریں اور ان حکومتوں کے ذریعے تبدیلی لائیں۔

شیئر: