Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی بچوں کا کھیل نہیں: معصوم دہلوی کا کالم

انڈیا میں لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 21 برس کرنے کی منظوری وفاقی کابینہ نے دے دی ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)
انڈیا میں 1970 کے عشرے تک لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 15 برس تھی، لیکن صرف قانون کی کتابوں میں۔ زمین پر اصل صورتحال یہ تھی کہ بہت سے علاقوں میں بچیاں گود میں ہی ہوتیں کہ ان کی شادی کر دی جاتی۔ اور کم سے کم دیہی علاقوں میں 10,12 سال کی عمر میں شادی کر دینا کوئی حیرت یا پریشان ہونے والی بات نہیں مانی جاتی تھی۔
پھر 1978 میں حکومت وقت کو لگا کہ لڑکیوں کی شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 کر دینی چاہیے۔ اس فیصلے کے پیچھے بنیادی طور پر یہ سوچ کار فرما تھی کہ شادی ذرا دیر سے ہوگی تو لڑکیوں کو پڑھنے کا موقع ملے گا اور ان کی جسمانی اور ذہنی نشونما ٹھیک سے ہو پائے گی۔ اور یہ کہ بہت کم عمر میں لڑکیوں کے ماں بن جانے سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے گا۔
لیکن لڑکوں کے لیے شادی کی عمر 21 برس طے کی گئی تھی۔ شاید سوچ یہ تھی کہ انہیں گھر چلانا ہوتا ہے وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں تبھی شادی کریں۔
مگر ظاہر ہے کہ یہ بھی پرانی سوچ ہے اور جنسی مساوات کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی۔ اس لیے انڈیا میں اب حکومت لڑکیوں کے لیے بھی شادی کی کم سے کم عمر 21 برس کرنے کی تیاری میں ہے اور وفاقی کابینہ نے اس تجویز کو منظوری دے دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا شادی کے لیے قانونی طور پر کسی عمر کا تعین کیا جانا چاہیے؟ کیا یہ فیصلہ کرنا واقعی حکومت کا کام ہے کہ ہم کس عمر میں شادی اور کب بچے پیدا کرسکتے ہیں؟
اصولاً تو نہیں، کیونکہ اس طرح کے قوانین کا اطلاق تقریباً ناممکن ہوتا ہے، لیکن اس کا براہ راست تعلق سماجی تغیر اور ہماری اپنی میچورٹی سے ہے۔ بہت سے لوگ، اور ان میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں، شادی کی عمر سے متعلق قانون کو اپنے آئینی دستوروں میں حکومت کی مداخلت مانتے ہیں، اور اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے وقت ان کی صحت اور ان کے مستقبل کی پرواہ نہیں کرتے۔
اس لیے ایسے قانون ضروری بھی ہیں۔ ان سے بیداری پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ خود لڑکیاں یہ نہیں چاہتیں کہ ان کی شادی کم عمر میں کر دی جائے۔ وہ بھی پڑھنا چاہتی ہیں اور زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ ایسی شادیاں اکثر ماں باپ اور خاندان والوں کے پریشر میں ہوتی ہیں۔
آج کے دور میں بھی انہیں لگتا ہے کہ لڑکی جتنا جلدی سے جلدی ’اپنے گھر‘ چلی جائے، اتنا ہی اچھا ہے۔ یہ سوچ تھوڑی بدلی ہے، لیکن دیہی علاقوں میں آج بھی لاکھوں شادیاں ایسی ہوتی ہیں جہاں لڑکیوں کو اپنی مرضی سے اپنی زندگی جینے کا موقع نہیں مل پاتا۔
تو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے؟
اگر کوئی 21 برس کا لڑکا 18 سال سے کم کی لڑکی سے شادی کرتا ہے تو کیا اسے، اس کے ماں باپ اور لڑکی کے ماں باپ کے ساتھ جیل بھیج دیا جانا چاہیے؟ کیا یہ خود اس لڑکی کو سزا دینے کے مترادف نہیں ہے جس کی شادی میں اس کی اپنی مرضی معلوم نہیں کی گئی تھی؟

انڈیا میں 1970 کے عشرے تک لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 15 برس تھی (فوٹو اے ایف پی)

قانون اپنی جگہ صحیح ہے مگر ضرورت سوچ بدلنے کی ہے۔ جب تک معاشرہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھتا رہے گا، جب تک ماں باپ، لیکن زیادہ تر باپ بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی جنس معلوم کرنے کی جستجو میں لگے رہیں گے، اور یہ معلوم ہو جانے پر کہ ان کہ گھر میں لڑکی آنے والی ہے، پیدائش سے پہلے ہی اس سے ’نجات‘ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے، زیادہ کچھ نہیں بدلے گا۔
مختلف حکومتوں نے اس مسئلے کو بھی سخت قوانین کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب ڈاکٹر والدین کو بچے کا جنس بتانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا کلینک سیل نہ ہو جائے۔ ایسے واقعات کم ہوئے ہیں لیکن سزا کے ڈر سے جرم ختم نہیں ہوا کرتے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ انڈیا میں اب مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی آبادی کا تناسب بہتر ہونا شروع ہوا ہے۔ حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اب ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں ایک ہزار 20 عورتیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں حالات یکساں طور پر بہتر ہوگئے ہیں۔
کئی ریاستوں میں اب بھی پیدائش کے وقت لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنسی تناسب شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں بہتر ہے۔
13 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اب بھی عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سرکاری سروے کے مطابق پسماندہ علاقوں میں یہ تناسب بہتر ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہاں ابھی اچھی طبی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی آئے گی تو ہو سکتا ہےکہ اس کا غلط استعمال بھی شروع ہو جائے۔

انڈیا میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی آبادی کا تناسب بہتر ہوا ہے (فوٹو اے ایف پی)

لیکن جیسا ہم نے پہلے کہا کہ قانون اور سزا کا ڈر بس ایک حد تک کام کرتا ہے۔ کچھ لوگ وقت کے ساتھ اپنی سوچ بدل لیتے ہیں کچھ کو تھوڑی حوصلہ افزائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہترین راستہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کو مالی مراعات سے جوڑ دیا جائے اور جب وہ پڑھ چکیں تو انہیں کیریئر اور شادی میں سے ایک کا انتخاب نہ کرنا پڑے۔
اس کے لیے لڑکیوں کے والدین کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ نہ ان پر بوجھ ہیں اور نہ بنیں گی۔ کئی ریاستوں میں اس طرح کی چھوٹی موٹی سکیمیں ہیں، لیکن اتنی بڑی نہیں کہ معاشرے میں کوئی گراں قدر تبدیلی لاسکیں۔
تو کیوں نہ تمام نوکریوں میں ایک تہائی نشستیں لڑکیوں کے لیے محفوظ کر دی جائیں؟ کیوں نہ والدین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ لڑکیاں ’پرایا دھن‘ یا دوسرے کی امانت نہیں ہوتیں، ہمارے گھروں پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جنتا کہ بیٹوں کا۔
جیسا کسی سمجھدار شخص نے کہا تھا کہ ’آپ کی بیٹیاں بھی اونچی پرواز کر سکتی ہیں، بس ان کے پر مت کاٹیے۔‘

شیئر: