’سنگلاخ‘ فارسی زبان کی ترکیب ہے، جو ’سنگ‘ اور ’لاخ‘ سے مرکب ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
لفظوں کی سنگلاخ سِلوں میں سمو دیا
یاروں نے فن کے پھول کو پتھر میں بو دیا
پھول اور پتھر کے امتزاج سے پھوٹتا حُسنِ تضاد، شاعر کی استادی کا ثبوت ہے، تاہم شعر میں موجود ’سنگلاخ سِل‘ کی ترکیب محلِ نظر ہے۔ وہ اس لیے کہ اردو میں مطلق ’سِل‘ کے معنی میں اس کا سنگی، حجری یا پتھری ہونا شامل ہے، اس بات کو علامہ اقبال کے مصرع ’قطرہِ خون جگر سِل کو بناتا ہے‘، سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ تاہم ’سِل‘ اگر کسی بھی دوسری جنس سے ہو تو اس جنس کا ذکر ’سِل‘ کے ساتھ ہی کردیا جاتا ہے، مثلاً برف کی سِل یا دھاتی سِل وغیرہ۔ اس وضاحت کے بعد سِل کے ساتھ ’سنگلاخ‘ کا لفظ ’حشو‘ کی تعریف میں آتا ہے، جسے اساتذہ ’عیب‘ بتاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ تمہید کی یہ تقریب فقط لفظ ’سنگلاخ‘ کی وضاحت کے لیے تھی، سو مدّعا پر آتے اور بات آگے بڑھاتے ہیں۔ ’سنگلاخ‘ فارسی زبان کی ترکیب ہے، جو ’سنگ‘ اور ’لاخ‘ سے مرکب ہے۔ فارسی کا ’سنگ‘ اردو میں ہندی کے ’سنگ‘ بمعنی ’ساتھ‘ کے پہلو بہ پہلو استعمال ہوتا ہے، اور محلِ استعمال بتا دیتا ہے کہ اس وقت ’سنگ‘ سے کیا مراد ہے۔ اس بات کو ’کاشر کاشمیری‘ کے شعر سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے، جس میں ’سنگ‘ ہر دو معنی میں برتا گیا ہے:
اِس انقلاب وقت پہ ہر ایک دنگ تھا
اُس نے بھی سنگ پھینکا جو میرے سنگ تھا
جہاں تک ’لاخ‘ کی بات ہے، تو یہ کلمہِ ظرف ہے، جو بطور لاحقہ آتا ہے، اور کثرت یا جگہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ اب ’سنگلاخ‘ پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ’سنگلاخ‘ کے معنی ’پتھریلی زمین‘ کے ہیں، جسے فارسی میں ’سنگستان‘ بھی کہا ہے۔
اردو میں ’لاخ‘ تنہا استعمال نہیں ہوتا اور فقط لفظ ’سنگلاخ‘ ہی میں نظر آتا ہے، تاہم فارسی میں اس کا استعمال مفرد و مرکب ہر دو صورتوں میں ہوتا ہے۔ فارسی میں پُر پیچ وادی کو بھی ’لاخ‘ کہتے ہیں، دوسری طرف شوریدہ زمین کو ’نمک لاخ‘ اور سرزمین شرو فساد کو ’اہرمن لاخ‘ کہتے ہیں، جب کہ اُجڑا دیار یا آسیب زدہ مقام ’دیولاخ‘ کہلاتا ہے۔
یہ بات بھی دلچپسی سے خالی نہیں ہوگی کہ اردو میں رائج فارسی کا ’داماد‘ دراصل ایک دعائیہ جملہ ’دائم آباد‘ ہے، جو مختصر ہو کر ’داماد‘ ہوگیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ’شاد باش‘ یعنی خوش رہو، تخفیف کے بعد ’شاباش‘ ہوگیا ہے۔
’سنگلاخ‘ پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ’سنگلاخ‘ کے معنی ’پتھریلی زمین‘ کے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
اردو میں لفظ ’داماد‘ کا عام اطلاق بیٹی کے شوہر پر ہوتا ہے، تاہم فارسی میں اس لفظ کے اطلاق و استعمال میں وسعت پائی جاتی ہے۔ فارسی میں بیٹی کے شوہر کے علاوہ بہن کا شوہر بھی ’داماد‘ کہلاتا ہے۔ جب کہ نو بیاہتا شخص بھی ’داماد‘ کی تعریف میں داخل ہے۔
فارسی مین ’داماد‘ کا لفظ بعض اوقات مطلق ’شوہر‘ کے معنی میں برتا جاتا ہے، اس بات کو فارسی زبان کے سب سے بڑے غزل گو شاعر حافظ شیرازی کے شعر سے سمجھا جاسکتا ہے جو کہہ گئے ہیں:
مجو درستیِ عہد از جہانِ سست نہاد
کہ این عجوزہ عروسِ ہزار داماد است
یعنی ناپایدار دنیا سے عہد کی استواری و پختگی مت ڈھونڈو کیونکہ یہ بڑھیا ہزار شوہروں کی دلہن ہے۔ یعنی دنیا نے ہزاروں سے رشتہ جوڑا اور انہیں ختم کردیا ہے۔
عربی میں لفظ ’عجوز‘ ایک وسیع المعنی لفظ ہے، یہ لفظ ’بوڑھا اور بڑھیا‘ کے علاوہ پچاس سے زیادہ معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
اب حافظ شیرازی کے اس شعر میں موجود لفظ ’عجوزہ‘ پر غور کریں، جو بمعنی ’بڑھیا‘ برتا گیا ہے۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس لفظ کی جڑ ’عجز‘ ہے۔ عربی میں لفظ ’عجوز‘ ایک وسیع المعنی لفظ ہے، یہ لفظ ’بوڑھا اور بڑھیا‘ کے علاوہ پچاس سے زیادہ معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور واقف حال جان جاتا ہے کہ اس وقت اس ’عجوز‘ کا محل استعمال کیا ہے جس کے معنی بہت زیادہ ہیں۔
عربی کے ’عجز‘ سے مشتق ہونے والے الفاظ کی تعداد بھی درجنوں میں ہے، اس کا تذکرہ کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور اردو میں رائج فارسی کی ایک اور ترکیب ’خُورد بُرد‘ کا تذکرہ کرتے ہیں۔اردو میں ’خوردبُرد‘ بدعنوانی اور بدیانتی کے اصطلاحی معنی برتا جاتا ہے، اس کے علاوہ رشوت اور اوپر کی آمدنی بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے، جب کہ اس کے لغوی معنی کھانا اور اُڑانا یا ضائع کردینے کے ہیں۔ ’ضائع ہونے‘ کے معنی کے ساتھ اس ’بُرد‘ کو ’دریا بُرد‘ کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں، جو ایسی زمین کے لیے بولا جاتا ہے جو دریا کے بہاؤ میں آجائے اور وہاں کاشت نہ ہوسکے، پھر ہر وہ چیز اس کے مفہوم میں داخل ہے جو سیلاب کی زد میں آجائے۔ دریا یا سیلاب کی لپیٹ میں آنے اور ضائع ہوجانے کی رعایت سے ’دریا بُرد‘ کے معنی میں تباہ و برباد ہونا اور غائب یا گُم ہوجانا بھی شامل ہوگیا۔ اب اس ترکیب کو پردیس سدھار جانے والی ’عشرت آفریں‘ کے پُر درد شعر میں ملاحظہ کریں: