Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گدھا شیر سے بہتر ہے، مگر کیسے؟

رگ اور رسی کو عربی میں 'حبل' کہتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری 
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
یہ میٹھے بول خواجہ الطاف حسین حالی کے ہیں، جو اردو زبان کی شیدائی ہی نہیں فدائی بھی تھے۔ 
زبان کے میٹھے ہونے کا تعلق اس کے خوش آہنگ الفاظ اور سبک و سلیس محاورات سے ہے اور اردو اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اردو نے اگر ایک طرف سنسکرت سمیت دسیوں دیسی بھاشاؤں اور بولیوں کے کٹھن اور کٹھور الفاظ کو سبک وسہل بنایا ہے تو دوسری طرف عربی و فارسی کے بے شمار شیریں، شُستہ و شگفتہ الفاظ کو اپنایا ہے۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ جب کوئی اردو بولتا ہے تو گویا کانوں میں رَس گھولتا ہے۔
ْرَس‘ میٹھا ہوتا ہے، اور میٹھے کو فارسی میں شیرین کہتے ہیں۔اسی نسبت سے مٹھائی شیرینی کہلاتی ہے۔ چوں کہ شیریں چیزیں عام طور پر مرغوب ہوتی ہیں، یوں اس رعایت سے شیریں کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی اور خوش لہجہ کو ’شیریں لہجہ‘ کہا گیا تو خوش گفتار کو ’شیریں لب،  شیریں دہن‘ و ’شیریں زبان‘ پکارا گیا۔ دیکھیں بھوپال (ہندوستان) کے ارشد صدیقی کیا کہہ رہے ہیں:
اس انتہائے تلخیِ دوراں کے باوجود
تازہ ہے آج بھی کسی شیریں دہن کی یاد
یوں تو شہد و شکر بھی شیریں ہوتے ہیں تاہم دونوں میں اس قدر فرق ہے کہ شہد قدرت کی صناعی  ہے اور شکر بندوں نے بنائی ہے۔ شکر دیسی (براؤن شوگر) ہو تو ’کھنڈ‘ کہلاتی ہے۔ یہی ’کھنڈ‘ فارسی میں ’کند‘ اور عربی میں ’قند‘ ہے، جب کہ انگریزی میں مخصوص معنی کے ساتھ ’کینڈی‘ کہلاتی ہے۔ 

’ْرَس‘ میٹھا ہوتا ہے، اور میٹھے کو فارسی میں شیرین کہتے ہیں۔اسی نسبت سے مٹھائی شیرینی کہلاتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

 دنیا بھر میں شکر بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ’گنّا‘ ہے۔ گنّے کا تعلق بانس گھرانے (Bamboo family) ہے۔ سرکنڈے سے لیکر طول طویل بانس تک اس فیملی میں بانسوں کی ایک ہزار اقسام شامل ہیں۔ بانس گھرانے کا ’سرکنڈا‘ پنجابی میں ’کانا‘ کہلاتا ہے، اس بات کو پیش نظر رکھیں اور لفظ ’گنّا‘ پر غور کریں تو اس ’گنّا‘ میں ’کانا‘ صاف نظر آئے گا۔ پھر یہی ’کانا‘ لاطینی میں کانے/Cane اور انگریزی میں کین/Cane کے تلفظ کے ساتھ رائج ہے۔ 
انگریزی میں Cane کے ایک معنی ’چھڑی اور بید‘ کے ہیں۔پھر اس چھڑی کے تعلق سے ’چھڑی سے مارنا‘ اور ’مارمار کے پڑھانا‘ بھی اس کے معنی میں داخل ہے۔ جب کہ اسی Cane کا ایک اور مطلب 'کھوکھلا بانس' ہے۔
'کھوکھلا بانس' نالی یا پائپ کی طرح ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں بانسوں کی کاشت زیادہ ہوتی ہے وہاں آبپاشی بذریعہ بانس (Irrigation by bamboos) بھی کی جاتی ہے۔ اب اس بات کو ذہن میں رکھیں اور انگریزی کین/Cane سے بننے والے درج ذیل الفاظ پر غور کریں، ان سب میں آپ کو پنجابی 'کانا' کی کارفرمائی کے ساتھ ' نال، نالا، نالی اور آبی گزرہ' کا مشترکہ مفہوم صاف نظرآئے گا:
1۔ Canal/کنال کا لفظ نالی اور نہر کے معنی لیے ہوئے ہے۔
 2۔ Canyon/کینیئن کا لفظ 'آبی درہ' اور ایسی گہری وادی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں چشمہ جاری ہو۔

Cannon کینن توپ کو کہتے ہیں، اسے یہ نام اس کی نال کی وجہ سے دیا گیا ہے. (فوٹو: ٹوئٹر)

 3۔ Cannon/کینن توپ کو کہتے ہیں، اسے یہ نام اس کی نال کی وجہ سے دیا گیا ہے، پھر Water Cannon/ واٹر کینن کی ایجاد نے اس لفظ کو اپنے معنی و مفہوم سے قریب تر کر دیا ہے۔ جو قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ 'ک/کاف' کی آواز حسب موقع 'چ/چے' سے بدل جاتی ہے، انہیں 'آبی گزرگاہ' کے معنی رکھنے والے لفظ Channel/ چینل کو پہچاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ بھی 'کانا' قبیلے ہی کا رکن ہے۔ اس لفظ کو مشہور زمانہ 'انگلش چینل' میں دیکھا جا سکتا ہے جسے فارسی کی رعایت سے اردو میں 'رودبارِ انگلستان' کہا جاتا ہے۔
یہ لفظوں کی جادوگری نہیں تو کیا ہے کہ بات 'کانے' سے چلی اور کہاں تک پہنچ گئی، اب اس سلسلے کی آخری بات اور وہ یہ کہ آپ نے کھوکھلے بانس(Cane/ کین) کی رعایت سے پانی کی روانی دیکھی اب میرزا غالب کی نسبت سے لہو کی جولانی ملاحظہ فرمائیں، جو کہہ گئے ہیں:
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
خون رگوں میں دوڑتا ہے یہ بات غالب کو معلوم تھی، مگر انہیں شاید یہ نہیں معلوم تھا کہ ’رَگ‘ کو انگریزی میں 'وین/Vein' کہتے ہیں، اور اس 'وین' کی اصل لفظ 'وَینو/वेणु' ہے، جو سنسکرت میں بانس کو کہتے ہیں۔ آسان لفظوں میں کہیں تو اگر ایک طرف 'کانا' سے 'Cane/کین' اور اس سے 'Canal/کینال' یعنی نالی و نہر کا مفہوم پیدا ہوا، تو دوسری طرف 'وَینو' سے 'وین/Vein' کے تصور نے جنم لیا، جس میں لہو دوڑتا ہے، یوں 'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا'۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ رگ اور رسی کو عربی میں 'حبل' کہتے ہیں، اگر یہ بات پیش نظر رہے کہ 'ح' حرف 'خ' سے بدلتا ہے اور 'خ' حسب موقع 'ک' میں ڈھلتا ہے، تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ انگریزی کیبل/Cable کی اصل عربی کا 'حبل' ہے۔
حرف 'ح' اور 'خ' کے باہم بدلنے کو بین الاقوامی روسی ریسلر 'حبیب نور محمد' کے نام سے سمجھا جاسکتا ہے، اس عربی 'حبیب' کو روسی 'خبیب' کہتے ہیں۔ اس کےبرعکس عبرانی لفظ 'خمام' عربی میں 'حَمَّامُ' ہوگیا ہے۔ جہاں تک 'خ' کے حرف 'ک/کھ' سے بدلنے کی بات ہے تو اسے سنسکرت کے 'کھر' میں دیکھ سکتے۔ ہیں جو فارسی میں 'خر' بنا گھوم رہا ہے۔
آپ نے اب تک 'خر' یعنی گدھے سے متعلق منفی باتیں اور محاورے ہی سُنے ہوں گے، مگر اب فارسی ضرب المثل ملاحظہ کریں جس میں ان الفاظ میں 'خر' کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے 'خَر باربِہ اَز شیرِ مَردُم دَر' یعنی بوجھ اُٹھانے والا گدھا آدمیوں کو پھاڑ کھانے والے شیر سے بہتر ہے۔ 

شیئر: