Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روس کی قیادت میں قازقستان سے امن فوج کا انخلا شروع

قازقستان میں 6 جنوری کو فوجیں تعینات کی گئی تھیں۔ فوٹو اے ایف پی
روس کی قیادت میں دو ہزار سے زائد فوجیوں نے قازقستان سے انخلا کا عمل شروع کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی جنرل اور اجتماعی سکیورٹی کی تنظیم (سی ایس ٹی او) کے فوجی دستوں کے کمانڈر آنڈرے سردوکوف نے جمعرات کو کہا کہ امن آپریشن اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے اور اس کے ذمے کام مکمل ہو گئے ہیں۔
خیال رہے کہ قازقستان میں تیل کی قیمتوں کے خلاف ہونے والے پر تشدد احتجاج کے دوران روس کی قیادت میں فوجیں تعینات کی گئی تھیں۔ 
قازقستان کے صدر قاسم جومارت نے کہا کہ روس اور اتحادی فوجوں نے ملک میں صورتحال کو مستحکم کرنے میں انتہائی اہم کرداد ادا کیا ہے۔
جمعرات کو دارالحکومت الماتی میں سی ایس ٹی او کے مشن کی اختتامی تقریب منعقد ہوئی جس میں تمام چھ رکن ممالک کے قومی ترانے نشر کیے گئے اور سرکاری عہدیداروں کی جانب سے تقاریر کی گئیں۔
سی ایس ٹو او کے کمانڈر آنڈرے سردوکوف کی قیادت میں روس، بیلاروس، آرمینیا، تاجکستان اور کرغستان سے آنے والی فوجیں 6 جنوری کو قازقستان میں تعینات کی گئی تھیں۔
روسی وزارت دفاع نے جمعرات کو تصدیق کی کہ ’امن فوج نے روسی ایرو سپیس فورسز کے ملٹری ایوی ایشن کے جہازوں میں اپنا ساز و سامان لوڈ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے اور مستقل تعیناتی کے مقام پر واپس لوٹ رہی ہیں۔‘

دو ہزار سے زائد فوجیوں نے قازقستان سے انخلا شروع کر دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اجتماعی سکیورٹی کی تنظیم (سی ایس ٹی او) کے تحت امن فوجیں تعینات کی گئی تھیں۔
قازقستان کے صدر نے مزید کہا کہ ’اتحادی فوجوں کی تعیناتی دہشت گردوں اور ڈاکؤں کی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں بلاشبہ نفسیاتی اہمیت کی متحمل ہے۔ مشن کو انتہائی کامیاب سمجھا جا سکتا ہے۔‘
سی ایس ٹی او کے دستے سٹراٹیجک اہمیت کے حامل الماتی ایئر پورٹ کا بھی دفاع کر رہے تھے جس پر گزشتہ ہفتے حکومت کے حریفوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
ایئر پورٹ کی پریس سروس نے کہا ہے کہ جمعرات سے اندرونی اور بیرونی پروازوں کا آغاز دوبارہ سے ہو گیا ہے۔
قازقستان کے صدر قاسم جومارت نے پر تشدد مظاہروں کو مقامی اور عالمی دہشت گردوں کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی ایک کوشش قرار دیا تھا۔

شیئر: