Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیرسمندر انٹرنیٹ کیبل خراب کیوں ہوتی اور اسے درست کیسے کیا جاتا ہے؟

’این کے ٹی وکٹوریہ‘ کو زیرسمندر کیبل بچھانے والے جدید ترین جہازوں میں شمار کیا جاتا ہے (فائل فوٹو: آف شورونڈ)
آپ سعودی عرب کے کسی شہر میں اپنے گھر یا رہائشی مرکز میں موجود ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہزاروں کلومیٹر دور پاکستان کے کسی گاؤں میں واقع آپ کے آبائی گھر میں موجود کسی پیارے تک آپ کی رقم فوراً پہنچ جائے۔ کچھ عرصہ قبل تک تو شاید یہ ممکن نہ تھا لیکن اب دنیا بھر کے سمندروں میں بچھی انٹرنیٹ کیبلز کی وجہ سے چند لمحوں میں رقم کی منتقلی کا یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
سب میرین کیبلز اور انٹرنیشنل مالیاتی ٹرانزیکشنز کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 10 ٹریلین ڈالر مالیت کی ٹرانزیکشنز ان زیرسمندر کیبلز کے ذریعے کی جاتی ہیں۔
سمندر کے اندر بچھی ہزاروں ڈالر مالیت کی یہ فائبر آپٹک کیبلز دنیا کے مختلف ملکوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں تو ہر روز ہزاروں ٹیرابائٹ ڈیٹا ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔

زیرسمندر یا سب میرین کیبل کیا ہوتی ہے؟

زیرسمندر کیبل یا سب میرین کیبل کہے جانے والی فائبر آپٹک کیبل سمندر کی تہہ میں بچھائی جاتی ہے۔ جس کے بعد ان کیبلز کو دنیا کے مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں میں موجود لینڈنگ مقامات تک پہنچایا جاتا اور پھر خشکی کے ذریعے ملک یا اردگرد کے دیگر حصوں کو باہم ملایا جاتا ہے۔
ماضی میں ٹیلی کام کمپنیاں ہی ان کیبلز کی ملکیت رکھتیں اور ان کے ذریعے ڈیٹا سروسز فراہم کرتی تھیں لیکن گزشتہ کچھ عرصہ میں انٹرنیٹ سے وابستہ دیگر ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی اس میدان میں سامنے آئی ہیں۔
کیبلز کے ذریعے منتقل ہونے والے ڈیٹا سے متعلق ایک رپورت میں نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ کا کہنا ہے کہ یہ کیبلز ایک دن میں تقریبا 10 ٹریلین ڈالر ڈالر کی مالیاتی ٹرانزیکشنز کے کام آتی ہیں۔

پاکستان میں کتنی سب میرینز کیبلز پہنچتی ہیں؟

سب میرینز کیبل میپ کے مطابق پاکستان میں سمندر کے ذریعے نو مختلف انٹرنیٹ کیبلز پہنچتی ہیں یا اس وقت ان پر کام جاری ہے۔ ان میں پیس کیبل، ایشیا افریقہ یورپ ون، افریقہ ون، افریقہ ٹو، سی می وی تھری، فور اور فائیو، ٹرانس ورلڈ یا ٹی ڈبلیو ون، آئی ایم ای ڈبلیو ای وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان پہنچنے والی سب میرین کیبلز میں سے ٹرانس ورلڈ یا ٹی ڈبلیو ون متحدہ عرب امارات اور عمان کو پاکستان سے ملاتی ہے، یہ لمبائی کے لحاظ سے سب سے مختصر کیبل ہے۔
زیرسمندر کیبلز کی میپنگ سے متعلق ادارے ٹیلی جیوگرافی کے مطابق پاکستان میں افریقہ ون اور افریقہ ٹو نامی کیبلز 2023 تک فعال ہوں گی۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے ہوتے ہوئے یہ کیبل کراچی کو دیگر لینڈنگ مقامات سے کنیکٹ کرے  گی۔ 45 سو کلومیٹر طویل کیبل چائنہ موبائل، فیس بک، ایم ٹی این گروپ، اورنج، سعودی ٹیلی کام، مصر ٹیلی کام، وڈافون کی ملکیت ہے۔ یہ 40 سے زائد لینڈنگ مقامات کو باہم ملاتی ہے۔

زیرسمندر نو کیبلز پاکستان کو دنیا سے ملاتی ہیں (فوٹو: ٹیلی جیوگرافی)

افریقہ ون 10 ہزار کلومیٹر طویل زیرسمندر کیبل ہے جو متحدہ عرب امارات کے ادارے اتصالات، موبایلی، پی ٹی سی ایل اور مصر ٹیلی کام کی ملکیت ہے۔ 
فرانس سے شروع ہو کر مشرق وسطی کے راستے سعودی عرب کے سمندر سے کراچی کے ساحل کو ملانے والی یہ کیبل دس مختلف لینڈنگ مقامات کو باہم ملائے گی۔
ایشیا، افریقہ یورپ ون نامی کیبل کی لمبائی 25 ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ چائنہ یونی کام، جبوتی ٹیلی کام، اتصالات متحدہ عرب امارات، میٹ فون، موبائلی، عمان ٹیل، اوریڈو، پی ٹی سی ایل سمیت متعدد اداروں کی ملکیت یہ کیبل ایشیا، افریقہ اور یورپی ملکوں کے 20 مختلف لینڈنگ پوائنٹس کو باہم ملاتی ہے۔
آئی ایم ای ڈبلیو ای نامی کیبل دسمبر 2010 سے فعال ہے۔ اتصالات متحدہ عرب  امارات، پی ٹی سی ایل، ایئر ٹیل انڈیا، سعودی ٹیلی کام، ٹاٹا کیمونیکیشن وغیرہ کی ملکیت یہ کیبل 12 ہزار 91 کلومیٹر طویل ہے۔ 
مشرق وسطی، جنوبی ایشیا سمیت افریقی ریجن کے ملکوں کو باہم ملانے والی یہ کیبل نو مختلف لینڈنگ مقامات کو باہم ملاتی ہے۔
پیس کیبل کراچی اور گوادر کے ساحل کو دنیا کے دیگر ملکوں سے ملانے والی نو کیبلز کا حصہ ہے۔ 13 لینڈنگ مقامات رکھنے والی یہ کیبل 15 ہزار کلومیٹر طویل اور پیس نیٹ ورک نامی ادارے کی ملکیت ہے۔

سب میرین کیبل دو مختلف اقسام کی ہوتی ہے (فائل فوٹو: یورپین سب سی کیبل ایسوسی ایشن)

ستمبر 1999 سے فنکشنل ہونے والی سی می وی تھری کیبل 39 ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ دیگر کیبلز کی طرح یہ پاکستان یا اس کے پڑوس میں پہنچ کر ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک جانب جرمنی سے شروع ہونے کے بعد یورپ اور مشرق وسطی سے گزر کر پاکستان کے ساحل پر پہنچتی اور پھر ایک جانب آسٹریلوی شہر پرتھ تو دوسری جانب جنوبی کوریا تک پہنچتی ہے۔
اس کے مالکان میں پی ٹی سی ایل کے علاوہ عمان ٹیل، اورنج، اتصالات متحدہ عرب امارات، سعودی ٹیلی کام اور دیگر ٹیلی کام کمپنیاں شامل ہیں۔
دسمبر 2005 میں فعال ہونے والی سی می وی فور 20 ہزار کلو میٹر طویل ہے۔ 16 لینڈنگ مقامات سے گزرنے والی یہ کیبل پی ٹی سی ایل اور سعودی ٹیلی کام سمیت درجن بھر ٹیلی کام کمپنیوں کی ملکیت ہے۔
سی می وی 5 نامی کیبل 20 ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ فرانس سے ملائیشیا تک پھیلی اس کیبل کے 18 لینڈنگ مقامات ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہیں۔ دسمبر 2016 سے فعال یہ کیبل سعودی ٹیلی کام سمیت پاکستانی ادارے ٹرانس ورلڈ اور مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کی ملکیت ہے۔

زیرسمندر انٹرنیٹ کیبل کا مالک کون؟

نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک زیرسمندر کیبلز میں سے ایسے 400 کیبلز کی موجودگی عوامی سطح پر تسلیم کی گئی ہے جو یا تو بچھائی جا چکی ہیں یا منصوبے کا حصہ ہیں۔ یہ کیبلز زیادہ تر ٹیلی کام کمپنیوں کی ملکیت ہوتی ہیں۔

کیبل میں خرابی کی نشاندہی کے لیے خودکاری گاڑی بھی استعمال کی جاتی ہے (فوٹو: یورپین سب سی کیبل ایسوسی ایشن)

2014 کے بعد سے گوگل، فیس بک اور مائکروسافٹ جیسے ٹیکنالوجی ادارے بھی بین البراعظمی انٹرنیٹ کیبل کے میدان میں داخل ہوئے ہیں۔

زیرسمندر کیبل کی قیمت؟

انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کے لیے سمندر میں بچھائی جانے والی کیبل کی مالیت کا تعین مختلف عوامل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ آزادہ جائزوں کے مطابق سمندر میں بچھائی جانے والی ایک کلومیٹر طویل کیبل پر 30 ہزار سے 50 ڈالر کی لاگت آتی ہے۔

سب میرین کیبل خراب کیسے ہوتی ہے؟

دنیا کے مختلف ملکوں کو سمندر کے ذریعے ایک دوسرے سے ملانے والی انٹرنیٹ کیبلز بعض اوقات تکنیکی مسائل کی وجہ سے بھی خراب ہو جاتی ہیں لیکن ایسا ہونا دشوار ہوتا ہے۔ سمندر میں شارک مچھلیاں کیبل کو نقصان پہنچا دیتی ہیں تاہم یہ نقصان معمولی ہی ہوتا ہے۔
بعض اوقات زلزلوں کی وجہ سے کیبل کو نقصان پہنچتا ہے۔ 2006 میں تائیوان کے ساحل پر آنے والے زلزلے سے زیرسمندر کیبلز بری طرح متاثر ہوئی تھیں جس سے عالمی سطح پر فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا سروسزمتاثر ہوئی تھیں۔
سمندر میں موجود کیبلز کو پیش آنے والی خرابی کی بڑی وجہ کشتیاں یا جہاز ہوتے ہیں۔ بڑے بحری جہاز جب اپنا لنگر گراتے ہیں تو وہ سمندر کی تہہ میں بچھی کیبل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

سب میرین کیبل کو مرمت کے لیے بعض اوقات سمندر سے باہر نکالنا پڑتا ہے (فوٹو: یورپین سب سی کیبل ایسوسی ایشن)

ٹیلی کام ماہرین کے مطابق اگر کیبل جزوی خراب ہو تو اس سے ڈیٹا کی ترسیل آہستہ ہو جاتی ہے البتہ اگر وہ مکمل طور پر کٹ جائے تو پھر ڈیٹا کی ترسیل ہو ہی نہیں سکتی ہے۔

زیرسمندر کیبلز کی مرمت کیسے ہوتی ہے؟

سن کر تو یہ بات عام سی لگتی ہے کہ کیبل خراب ہو گئی ہے، لیکن سمندر میں ہزاروں فٹ گہرائی میں موجود انٹرنیٹ کیبلز جب خراب ہو جائیں تو انہیں مرمت کرنا بھی ایک دشوار کام ہوتا ہے۔
ہزاروں میٹر طویل کیبل میں خرابی کی نشاندہی اس وقت ہوتی ہے جب انٹرنیٹ یا فون سروس میں تعطل آ جائے۔ اس مرحلے پر ماہرین یہ دیکھتے ہیں کہ کیبل میں خرابی کس مقام پر ہے۔

کیبل میں خرابی کا مقام جانچنے کے بعد خصوصی بحری جہاز مرمت کا کام کرتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس مقصد کے لیے کیبل کے ذریعے ایک لائٹ پلس بھیجی جاتی ہے جو ایک سے دوسرے سرے تک سفر کرتی ہے۔ جہاں سے کیبل کٹی ہوئی وہاں سے لائٹ پلز واپس لوٹتی ہے، اس مرحلے پر انجینیئرز یہ دیکھتے ہیں کہ پلس نے واپس لوٹنے میں کتنا وقت لیا، اسی بنیاد پر کیبل کی خراب جگہ کا تعین کیا جاتا ہے۔
ابتدائی اندازے کے بعد ریموٹری آپریٹڈ وہیکل (آر او وی) کو خرابی کی نشاندہی کر سکنے والے آلات کے ساتھ اس مقام پر بھیجا جاتا ہے۔ جہازوں کے لنگر سے ہونے والا نقصان دیکھنا نسبتا آسان ہوتا ہے لیکن دیگر خرابیوں کو تلاش کرنا قدرے دشوار ہوتا ہے۔ جب کیبل کی خرابی کی نشاندہی ہو جائے تو اسے مرمت کرنے والا خصوصی جہاز اس مقام پر بھیجا جاتا ہے۔
موسمی حالات، سمندری مخلوق اور دیگر خطرات کی موجودگی میں یہ جہاز اس مقام پر پہنچتا اور مرمت کے کام کے دوران وہیں ٹھہرتا ہے۔ 

شارک مچھلیاں، زلزلے اور سمندر سے گزرنے جہاز کیبل کو نقصان پہنچاتے ہیں (فوٹو: یورپین سب سی کیبل ایسوسی ایشن)

کیبل شپس کہلانے والے یہ جہاز جدید آلات سمیت کئی کلومیٹر طویل کیبل بھی رکھتے ہیں۔ ریپئرنگ کے کام میں استعمال ہونے والے کچھ جدید جہاز ایسے بھی ہیں جن پر 9 ہزار کلو میٹر طویل کیبل کو رکھا جا سکتا ہے۔
زیرسمندر کیبلز کے نقشے تیار کرنے والے ادارے ٹیلی جیوگرافی کے نائب صدر ٹم سٹرونگ کے مطابق کیبلز میں خرابی کا مسئلہ عموما رہتا ہے۔ ہفتے میں ایک سے دو مرتبہ دنیا کے کسی نا کسی حصے میں زیرسمندر کیبل میں خرابی کی شکایت سامنے آتی رہتی ہے۔ بہت سے مواقع پر تو صارفین کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کیبل میں کوئی خرابی ہوئی تھی اور اسے ٹھیک بھی کر لیا جاتا ہے۔
بعض اوقات زیرسمندر کیبلز کے ساتھ ایسے مسائل پیش آتے ہیں جو نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔2008  میں بھی کیبل کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد مصر اور انڈیا میں انٹرنیٹ کا 70 اور 60 فیصد حصہ صارفین کو دستیاب نہیں رہا تھا۔

کیبل کی خرابی درست کرنے کے لیے جدید آلات سے لیس خصوصی بحری جہاز استعمال کیے جاتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اگر خراب کیبل آلودہ پانی یا سمندر کے مشکل حصے میں ہو یا بحری جہاز نے کیبل کو اس کے مقام سے ہٹا دیا ہو تو آر او وی اسے تلاش نہیں کر سکتی۔ ایسے مواقع پر مرمت کے لیے استعمال کیے جانے والے جہاز دیگر ذرائع استعمال کر کے کیبل کے کٹے ہوئے حصے کو سمندر سے باہر نکالتے اور پھر مرمت کرتے ہیں۔
جہازوں پر لیبارٹی کی طرح دکھائی دینے والے ریپئرنگ ہالز میں انجینئرز کیبل کی مرمت کرتے ہیں جو بعض اوقات کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والا کام بن جاتا ہے۔
ماہرین ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کے ذریعے خراب کیبل کو سمندر سے نکال کر ٹھیک کرنے کے بجائے وہیں اسے درست کیا جا سکے گا۔

شیئر: