Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مری انکوائری رپورٹ میں ’مبالغہ آمیزی‘

رپورٹ کے مطابق رسیکیو 1122 کو جو کرین لانے کا کہا گیا تھا وہ بھی نہیں لائی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان صوبہ پنجاب کے مشہور سیاحتی مقام مری میں سات جنوری کو شدید برف باری میں پھنس جانے والے 22 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد اس واقعے کی انکوائری کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ 19 جنوری کو پیش کر دی ہے۔
بدھ کو 27 صفحات پر مبنی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد کمیٹی کی سفارش پر انتظامیہ سمیت دیگر شعبوں کے 15 افسران کی کارکردگی کو غیرتسلی بخش اور ناکافی  قرار دیتے ہوئے انہیں عہدوں سے معطل کر دیا گیا ہے۔
مری واقعے پر بنائی گئی پانچ رکنی کمیٹی کی سربراہی پنجاب کے چیف سیکرٹری ظفر نصر اللہ خان کر رہے تھے۔
اس کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے لیے مختلف ٹرمز آف ریفرنسز(ٹی او آرز) کے تحت محکمہ موسمیات، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، ٹریفک پولیس، ضلعی پولیس، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، پنجاب ڈیزاسٹر مینجیمنٹ اتھارٹی کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کے سامنے متعدد سوالات رکھے اور اس کے بعد تحقیقات کے نتائج مرتب کیے۔
تحقیقات کے دوران کمیٹی کے ارکان نے مخلتف افراد اور عہدے داروں سے انٹرویوز کیے اور ہلاکتوں کے مقام کا جائزہ لیا۔
انکوائری رپورٹ کے اہم انکشافات کیا ہیں؟

پولیس کی مطلوبہ نفری فراہم کیے جانے کے باوجود ٹریفک کو ٹھیک طرح سے کنٹرول نہیں کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس رپورٹ میں سیاحوں کے برف باری میں پھنس جانے کی وجہ سے ہلاکت کے اسباب کا جائزہ لینے کے بعد ٹی او آر کے جوابات کی تفصیلی درج کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ موسمیات (پی ڈی ایم) اور پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے متوقع برف باری کی اطلاع کے باوجود ٹریفک کے متوقع دباؤ سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے جبکہ متعلقہ افسران نے موقف اپنایا کہ انہیں یہ وارنگز موصول ہی نہیں ہوئیں۔
کمیٹی نے اس پہلو کی تحقیق کے بعد پایا کہ برفباری سے متعلق وارننگ 5 جنوری کو صرف ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے کو بھیجی گئیں لیکن اتفاق سے اس وقت اس عہدے پر کوئی بھی موجود نہ تھا کیونکہ پہلے ڈی جی 3 جنوری کو اپنا چارج چھوڑ کر جا چکے تھے۔
انتظامیہ کے افسران نے واٹس ایپ گروپ بہت دیر سے دیکھا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کی گئی وارننگ ایک واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی گئی جس کا نام ’پی ڈی ایم اے پنجاب انفو ڈیسک‘ ہے۔ ضلع راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر مری اس گروپ میں شامل ہیں لیکن یہ ’ہدایات بہت تاخیر سے پڑھی گئیں جس کے بعد منصوبہ بندی کی مہلت نہیں تھی۔‘
کمیٹی نے لکھا کہ ’اس کی ذمہ داری پی ڈی ایم اے پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں محکمہ موسمیات کی وارننگ واٹس ایپ پر فارورڈ کرنے پر ہی اکتفا کیا، ای میل، فون کالز اور دیگر ذرائع سے اس کے ممکنہ خطرات کے بارے میں متعلقہ افراد کو آگاہ نہیں کیا۔

پی ڈی ایم کے ڈائریکٹر نے 18 جنوری تک وہ واٹس ایپ کھولا تک نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ این ڈی ایم کی کی جو وارننگ پی ڈی ایم کے کنٹرول روم کے نمبر پر بھیجی گئی لیکن پی ڈی ایم کے ڈائریکٹر نے 18 جنوری تک وہ واٹس ایپ کھولا تک نہیں۔
کمیٹی نے ڈی سی راولپنڈی اور اے سی مری، ٹریفک پولیس اور دیگر متعلقہ محکموں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی سرگرمی کی جانچ کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ پی ڈی ایم اے کی پانچ جنوری کی ایڈوائزی کے باوجود سات جنوری سے قبل سیاحوں کے کوئی سفری ہدایت جاری نہیں کی گئی۔ جب سات جنوری کو مری جانے والی ٹریفک روک دی گئی تو اس کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹنگ شروع ہو گئی۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم نے 5 جنوری والی ٹریول ایڈوائزی اپنی ویب سائٹ یا ٹویٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ نہیں کی۔
ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے بروقت اقدام نہیں کیا گیا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مری ٹریفک پولیس کو سی پی او اور سی ٹی او راولپنڈی کی جانب سے پولیس کی مطلوبہ نفری فراہم کیے جانے کے باوجود ٹریفک کو ٹھیک طرح سے کنٹرول نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے پولیس کی کارکردگی غیرتسلی بخش تھی۔ سات جنوری کے دن کے شروع میں مری میں گاڑیوں کے داخلے پر پابندی نہیں لگائی گئی۔
مزید یہ ہے کہ مری کی تمام سٹرکیں بند ہوجانے کے باوجود رات 11 بجے تک گاڑیاں ٹول پلازوں سے بلا کسی روک ٹوک کے گزرتی رہیں۔
ٹول پلازوں کی جانب سے دیے گئے آنے اور جانے والی گاڑیوں کے اعداد و شمار کو کمیٹی نے ’ناقابل بھروسہ‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے انہوں نے مری کے رہائشیوں، آرمی کی گاڑیوں اور سیاحوں کی گاڑیوں کا الگ الگ کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جبکہ یہ بہت اہم تھا۔
ہنگامی صورتحال سے متعلق میٹنگز ہوئیں لیکن عمل نہیں ہوا
13 دسمبر  اور اس سے قبل آٹھ اور 30 نومبر کو ضلعی انتطامیہ نے میٹنگز کیں لیکن ان میں اس صورت حال پر کوئی بات نہیں کہ گئی کہ اگرمری کی ٹریفک کسی وجہ سے جام ہو جائے تو اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے گا۔
علاوہ ازیں 31 دسمبر کو موسم سرما کے لیے بنایا گیا ٹریفک پلان میں بھی اس بارے میں خاموش تھا کہ ایسی صورت حال میں ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے کیسے رابطہ کاری ہو گی۔
 مشینری کو اہم مقامات پر بروقت متحرک نہیں کیا گیا

مشینوں کو بروقت مناسب جگہوں پر متحرک نہ کرنے کی وجہ سے ٹریفک جام کے بعد ان کا وہاں پہنچنا ناممکن ہو گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برفباری کے دوران ضروری مشینری کو سڑکوں پر متحرک کرنے کا منصوبہ تو تھا لیکن اس میں مشین آپریٹز کے نام ، مشینوں کے لیے ڈیزل اور سڑکوں پر ڈالنے کے لیے نمک کی فراہمی کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ مشینوں کو بروقت مناسب جگہوں پر متحرک نہ کرنے کی وجہ سے ٹریفک جام کے بعد ان کا وہاں پہنچنا ناممکن ہو گیا تھا۔
ٹریفک پولیس کو مناسب سامان نہیں دیا گیا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برفباری کے لیے ٹریفک پلان اور مطلوبہ نفری ہونے کے باوجود انہیں کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری سامان اور آلات فراہم نہیں کیے گئے۔ کئی مقامات پر برفانی طوفان کے دوران ٹریفک پولیس کے اہلکار لوگوں کی مدد کی بجائے اپنے لیے پناہ ڈھونڈتے رہے۔ تاہم بعض جگہوں پر کچھ ٹریفک اہلکار برف میں پھنسے افراد کی مدد کرتے رہے۔
ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کا انکار
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ہنگامی حالات اور حادثات میں شہریوں کی مدد کے قائم محکمے ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کے بارے میں لوگوں نے شکایت کی ہے کہ جب ان سے مدد مانگی گئی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ انکار کیا بلکہ طوفان کے تھم جانے کا انتظار کرنے کو کہا۔ مزید یہ کہ رسیکیو 1122 کو جو کرین لانے کا کہا گیا تھا وہ بھی نہیں لائی گئی۔
مقامی ہوٹلوں کے ساتھ انتظامیہ کی کوارڈینیشن نہیں تھی
انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈی سی اور اے اسی کی ہوٹل ایسوسی ایشن سے میٹک ہوئی تھی لیکن جب برف کا طوفان شروع ہوا تو اس کے بعد سیاحوں کو ہوٹلوں میں محفوظ طریقے سے منتقل کرنے کے حوالے سے انتظامیہ اور ہوٹلوں کے درمیان رابطہ کاری کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔
’مقامی افراد کے خلاف الزامات میں مبالغہ آمیزی‘
جب یہ واقعہ آیا تو ذرائع ابلاغ میں خبریں نشر ہوتی رہیں کہ مری کے مقامی افراد نے مشکل میں پھنسے سیاحوں کا بری طرح استحصال کیا اور ہوٹلوں کے کمروں اور کھانے پینے کی اشیا کے نرخ بڑھا دیے لیکن انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی افراد اور ہوٹل مالکان نے کئی مقامات پر سیاحوں کی ’بے لوث‘ مدد کی لیکن بعض جگہوں پر سیاحوں نے ہوٹلوں مالکان کے خلاف زیادہ بل لینے کی شکایات بھی کیں۔ مجموعی طور پر مقامی افراد کی جانب سے سیاحوں کے استحصال کے الزامات ’مبالغہ آمیز ‘ ہیں۔
رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ افسران کسی بھی خطرے کا تخمینہ لگانے میں ناکام رہے اور ضلع اور تحصیل ہر سطح پر انتظامیہ کے اہلکار قیادت کے فقدان کا شکار نظر آئے۔

مجموعی طور پر مقامی افراد کی جانب سے سیاحوں کے استحصال کے الزامات ’مبالغہ آمیز ‘ ہیں۔ (فوٹو؛ اے ایف پی)

کوئی مناسب کنٹرول روم قائم نہیں کیا گیا۔ مخلتف محکموں نے سیاحوں کی مدد کے لیے مشترکہ اور مربوط کاوشیں نہیں کیں۔
کمیٹی نے آخر میں 15 افراد کی فہرست دی اور اپنی ذمہ داریوں میں غلفت برتنے پر ان کے خلاف ایکشن کی تجویز بھی دی۔ ان افسران میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور اسسٹنٹ کمشنر  مری کے علاوہ سی ٹی وی راولپنڈی ، سی پی او راولپنڈی، ڈی ایس ہی ٹریفک، ہائی وے کے افسران۔ ڈویژنل فارسٹ آفیسر مری اور ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے شامل ہیں۔
رپورٹ سامنے آنے کے بعد ان افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔

شیئر: