Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں کے بعد اب تک کیا کارروائی ہوئی؟

سوشل میڈیا صارفین نے حکومت کے ساتھ ساتھ وٹل مالکان کے رویوں پر بھی تنقید کی (فوٹو: آئی ایس پی آر)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سیاحتی مقام مری میں گذشتہ ہفتے سات جنوری کو برفباری کے دوران پھنس جانے کے نتیجے میں ہونے والی 22 ہلاکتوں کے بعد اس واقعے کی گونج معاشرے کے سبھی طبقات میں سنی جا رہی ہے۔
حکومت اور اس کے ادارے برف کو قدرتی آفت قرار دیتے دکھائی دیے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں اس واقعے کو حکومت کی انتظامی نااہلی قرار دے رہی ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں بھی حزب مخالف کے رہنماؤں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر مِلا جُلا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جہاں لوگ حکومت کی کارکردگی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں، وہیں مری کے دکانداروں اور ہوٹل مالکان کے رویوں پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔
اسی بحث کچھ لوگ دیگر سیاحتی مقامات سوات، گلگت بلتستان اور کشمیر کا مری سے تقابل کرتے اور سیاحوں کو وہاں جانے کی ترغیب دیتے دکھائی دیے۔
 واضح رہے کہ مری میں سات جنوری کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد حکومت حرکت میں آئی اور ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، پولیس سمیت پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے برف میں پھنسے سیاحوں کو نکلنے میں مدد فراہم کی۔ اس ریسکیو آپریشن میں  کچھ فلاحی تنظیمیں بھی شامل رہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید نے واقعے کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’لوگ ہوٹلوں کو بھاری کرائے ادا کرنے کے بجائے اپنی گاڑیوں میں ہی سو گئے جس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا۔‘

انکوائری کمیٹی اور مری کو ضلع بنانے کا فیصلہ

اس واقعے کے اگلے روز صوبہ پنجاب کی حکومت کے ترجمان حسان خاور نے ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب راولپنڈی پہنچ چکے ہیں اور خود ریلیف اور ریسکیو آپریشن کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ‘
اس کے  اگلے روز وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہیلی کاپٹر پر مری پہنچے اور صورتحال کا فضائی جائزہ لینے کے بعد وہاں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں کچھ اہم فیصلے ہوئے۔

واقعے کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مری کا دورہ کیا اور ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا (فوٹو: سکرین گریب)

وزیراعلیٰ نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی اور مری کو ضلع کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی کیا، تاہم ماضی کی مثالوں کے برعکس وزیراعلیٰ پنجاب نے اس دورے کے دوران فوری طور پر کسی بھی انتظامی افسر کے خلاف کارروائی کا حکم جاری نہیں کیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر وزیراعلیٰ پنجاب کے فضائی دورے پر مختلف قسم کے تبصرے کیے جاتے رہے جن میں سے بیشتر میں ان پر طنز کیا گیا تھا۔

واپس آنے والے سیاحوں نے کیا کہا؟

اس واقعے کے دو دن بعد جب سیاح واپس اپنے گھروں کو پہنچنے لگے تو ان میں سے بعض نے اپنی کہانیاں بیان کرنا شروع کیں۔ کچھ سیاحوں نے مری میں واقع ان ہوٹلوں کے بِل اور تعارفی کارڈ ز بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جنہوں نے سیاحوں کے بقول شدید برفباری کے دوران اپنے کمروں اور کھانے پینے کی چیزوں کے نرخ کئی گنا بڑھا دیے تھے۔
ایک ایسی ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں ایک سیاح مری کے کچھ مقامی افراد کی جانب سے سڑک پر برف پھینکنے کے بعد سیاحوں کو گاڑیاں نکالنے میں بھاری پیسوں کے عوض مدد فراہم کرنے کے واقعات سے آگاہ کر رہاتھا۔
سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا گیا کہ جب سیاح برفباری میں پھنسے ہوئے تھے اس وقت وہاں اُبلے ہوئے انڈے کا ریٹ بڑھا کر پانچ سو روپے کر دیا گیا تھا۔
اس طرح کے واقعات سننے کے بعد سوشل میڈیا پر مری کا بائیکاٹ کرنے کے لیے ایک ٹرینڈ بھی چلتا رہا۔ اس ٹرینڈ کے تحت لوگ مری کے ہوٹل مالکان اور دیگر خدمات فراہم کرنے والوں کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرتے رہے۔
دوسری جانب کئی لوگوں کا موقف یہ تھا کہ چند عناصر کی وجہ سے مری کے لوگوں کو بدنام کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ واقعے کے بعد مری کے مختلف عوامی و سماجی حلقوں نے سیاحوں کو ہر ممکن مدد کی۔

حکومت کی جانب سے لاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے ایک کروڑ 75 لاکھ روپے کی مالی اعانت کا اعلان کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

اسی دوران وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ’گراں فروشوں اور زیاد کرائے لینے والوں کے خلاف کارروائی ‘ کا اعلان بھی کیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے ایک کروڑ 75 لاکھ روپے کی مالی اعانت کا اعلان بھی کیا۔

اب تک کن افراد کے خلاف کارروائی ہوئی؟

سیاحوں کی جانب سے شکایات سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے یہ خبر آئی کہ انتظامیہ نے وہ ہوٹل سیل کر دیا ہے جس کا بِل اور تعارفی کارڈ سیاح کی جانب سے سوشل میڈیا پوسٹ کیا گیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ اس نے کمرے میں ایک رات ٹھہرانے کے لیے معمول سے کئی گنا زیادہ چارج کیا تھا۔

پھر11  جنوری کی شام کو یہ خبر سامنے آئی کہ اسسٹنٹ کمشنر مری نے اوور چارجنگ کرنے والے مزید15  ہوٹلوں کو سیل کر دیا ہے۔ سیل کیے  گئے یہ ہوٹلز ابوظہبی روڈ، کلڈنہ روڑ، اپر جھیکا گلی روڈ اور بینک روڈ پر واقع ہیں۔
اس کے علاوہ اسی روز راولپنڈی پولیس نے مری سے ثاقب عباسی نامی ایک شخص کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا اور بتایا کہ ’مذکورہ شخص جان بوجھ کر سڑک پر برف پھینکنے کے بعد پھسلنے والی گاڑیوں کو اپنی جیپ کی مدد سے نکالنے پر سیاحوں سے پیسے اینٹھتا تھا۔ اس کی جیپ بھی پولیس نے ضبط کر لی ہے۔‘

مری کے ہوٹل مالکان اور تاجروں کی پریس کانفرنس

سیاحوں کی ہلاکت کے بعد حکومت نے مری میں داخلے پر پابندی لگائی اور24  گھنٹے بعد اس میں مزید توسیع کر دی۔ بعدازاں 17 جنوری تک مری میں سیاحوں کا داخلہ بند کر دیا گیا۔

سیاحوں کے مری میں داخلے پر پابندی کے خلاف منگل کو مری کے ہوٹل مالکان اور تاجروں کے نمائندوں نے نیشنل پرس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور اس واقعے کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر عائد کی۔

برف باری میں پھنسنے کے باعث 22 افراد ہلاک ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

مری ہوٹل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری راجہ یاسر ریاست عباسی نے کہا کہ ’مری سانحے کی ذمہ دار نااہل مری انتظامیہ ہے، ضلعی انتظامیہ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے سارا ملبہ ہوٹل انڈسٹری اور مری کے رہائشیوں پر ڈال رہی ہے۔ سیاحوں کو زائد نرخوں، زیورات یا گاڑیوں کے کاغذات کے بدلے کمرے کرائے پر دینے کا تأثر بالکل غلط ہے، جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کمرے 50 ہزار روپے میں دیے گئے وہ ثبوت لائیں۔ ہم ان ہوٹلز کے خلاف ایکشن لیں گے۔‘
انہوں نے ’مری کے داخلی راستوں سے رکاوٹوں کو فوری ہٹانے‘  کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مری کے لوگوں کا معاشی قتل نہ کیا جائے اور سیاحوں کو مری جانے کی اجازت دی جائے۔‘

’اہلیانِ مری ایسے نہیں ہیں‘

اسی پریس کانفرنس میں صدر انجمن تاجران مری راجہ طفیل اخلاص عباسی نے کہا کہ ’جو چہرہ سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے اہلیان مری ایسے نہیں ہیں، یہ کیسی حکومت ہے کہ ان کے پاس مشینری کے لیے ڈیزل نہیں ہے، رات کو ہی فوج کو بلا لیا جاتا تو بھی سانحہ نہ ہوتا۔‘

مری ڈویلپمنٹ فورم کا وائٹ پیپر

بدھ 12جنوری کو مری ڈویلپمنٹ فورم نے بارہ صفحات پر مشتمل ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’مری میں حالیہ برفباری سے کہیں زیادہ برفباری ماضی میں ہو چکی ہے، اس سلسلے میں حکومتی نمائندے، ادارے اور مقامی صحافی جھوٹ پر مصر ہیں کہ یہ قدرتی آفت تھی۔‘

اس وائٹ پیپر میں جہاں اے سی مری ، محکمہ ہائی وے، ٹول پلازہ، محکمہ جنگلات ، سٹی ٹریفک پولیس، واپڈا، ٹی ایم اے اور ریسکیو 1122، عسکری اداروں، این ڈی ایم اے اور مقامی صحافیوں کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

مری کے ہوٹل مالکان اور تاجروں واقعے کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیا (فوٹو: سکرین گریب)

وائیٹ پیپر میں کہا گیا کہ ’برف صاف کرنے والی مشینوں کے آپریٹر نہیں تھے اور سڑکوں پر بروقت نمک پاشی بھی نہیں کی گئی۔‘
’ہوٹل انڈسٹری ظالمانہ رویہ سیاحت کے لیے خطرہ‘
وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ’مری کی ہوٹل انڈسٹری ریگولیٹ نہ ہونے کہ وجہ سے متعدد ہوٹل مالکان نے حالیہ برف باری میں بھی منافع خوری کا بازار گرم رکھا۔ہوٹل انڈسٹری کا یہ ظالمانہ رویہ مری سے سیاحت کے مکمل خاتمے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔‘
 اس وقت مری کی کیا صورتحال ہے؟
اردو نیوز نے مری کے اسسٹنٹ کمشنر عمر مقبول سے وہاں کی تازہ ترین صورت حال جاننے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
مری کے صحافی امتیاز الحق نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’مری کی مرکزی سڑکوں پر سے برف ہٹائی جا چکی ہے لیکن سیاحوں پر پابندی کی وجہ سے ٹریفک بہت محدود ہے۔ کشمیر کی جانب جانے والی سڑک پر سے بھی برف ہٹائی جا چکی ہے۔‘
 ’ابھی تک کسی قسم کے نئے ایس او پیز کی اطلاع ہمیں نہیں ملی۔‘

شیئر: