Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس: پولیس کے وضاحتی بیان پر ملزمان کے وکلا کا اعتراض

نور مقدم قتل کیس کی سماعت اسلام آباد کی مقامی عدالت میں ہو رہی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
نور مقدم قتل کیس میں ملزمان کے وکلاء نے پولیس کی جانب سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی شرٹ سے مقتولہ کے خون کے نشانات ملنے کے بیان پر وضاحت مانگی ہے کہ کیا اس کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے؟
بدھ کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں ہونے والی سماعت کے موقع پر مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے پولیس کے ٹوئٹر پر دیے گئے بیان پر وضاحت مانگی۔ 
خیال رہے کہ منگل کو اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر بیان دیا تھا کہ نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی شرٹ سے مقتولہ کے خون کے نشانات ملے تھے۔
بدھ کو ایڈنشل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج عطا ربانی کی عدالت میں سماعت کے دوران گذشتہ روز پولیس کی جانب سے کیس سے متعلق وضاحتی بیان پر اعتراض اٹھایا گیا۔ وکیل اسد جمال نے عدالت میں استفسار کیا کہ کیا اس بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے؟ 
جس پر پراسیکیوٹر حسن عباس نے کہا کہ میڈیا کی باتیں میڈیا تک ہی رہنے دیں۔
وکیل اسد جمال نے اعتراض اٹھایا کہ آئی جی پولیس کی جانب سے بیان سامنے آیا، چاہے آئی جی ہوں یا چیف سیکریٹری وہ آپ کے ماتحت ہیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ وضاحت آئی جی صاحب نے نہیں بلکہ پولیس نے دی ہے۔
اس مکالمے کے دوران جج عطاء ربانی نے کہا کہ ’اس معاملے میں دیکھ لیتا ہوں، دیکھ لیتے ہیں کہ آئی جی نے اپنی وضاحت میں کیا کہا ہے؟‘ 
واضح رہے کہ گذشتہ سماعت پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین کی تفتیشی افسر پر جرح کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ فرانزک رپورٹ میں پستول اور چاقو پر فنگر پرنسٹس کے نشانات نہیں پائے گئے جبکہ وکیل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے تفتیشی افسر نے بیان دیا تھا کہ گرفتاری کے وقت مرکزی ملزم کی پتلوں پر خون کے نشانات نہیں تھے۔ 
ان بیانات کے بعد پولیس نے منگل کو وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ گرفتاری کے وقت مرکزی ملزم کے پتلون پر خون کے نشانات نہیں تھے تاہم شرٹ خون آلود تھی جبکہ ڈی این اے رپورٹ میں ریپ تصدیق ہونے کے بارے میں بھی وضاحت جاری کی تھی۔ 
نور مقدم قتل کیس میں اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں سماعت جاری ہے جس میں تھیراپی ورکس کے سی ای او کے وکیل اکرم قریشی تفتیشی افسر پر جرح کر رہے ہیں۔

شیئر: