Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زینت جعفری، مسلسل روشنی بکھیرنے والا علم کا مینار

 
 شادی  مسرت کی نوید لاتی ہے اور زنیت میڈم کی خوش نصیبی کہ ان کی شادی ہی مسرت سے ہوئی
 
کے این واصف۔ ریاض
 
کسی شاعر کا مصرعہ ہے "پاؤں دابے ہیں بزرگوں کے تو یہ فن آیا ہے"لیکن میں اسے اپنے لئے یوں کہوں گا کہ "مار کھائی استاد کی تو خاکہ نگاری جیسا فن آیا ہے"مجھے وہ اساتذہ اور ان کی چھڑی آج بھی یاد ہے لہٰذا اس عمر میں پھر کسی ٹیچر سے پٹنا ہمیں مناسب نہیں لگا تو ہم نے مسز جعفری سے فون کر کے پوچھ ہی لیا کہ اگر خاکہ نگاری میں کہیں ہمارے قلم سے لغزش ہوجائے تو آپ کہیں چھڑی تو نہیں اٹھا لیں گی؟ میڈم جعفری نے ہنس کر کہا میں نے اپنے طلباء پر کبھی چھڑی نہیں اٹھائی۔ آپ بے خطر ہو کر اپنا خاکہ لکھیں۔
 
 میڈم جعفری دنیا کی خوبصورت ترین عمارت والے شہرآگرہ میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم یوپی کے مختلف شہروں میں حاصل کی۔ آپ کے والد ایک  آئی اے ایس افسر تھے۔ 1963ء میں ان کی پوسٹنگ کشمیر میں ہوئی۔ مسزجعفری نے 1963ء سے 1975ء تک کا عرصہ کشمیر میں گزارا جسے مغل بادشاہ جہانگیر نے جنت ِ ارضی  قرار دیا تھا اور اس دور میں واقعی کشمیر جنت نظیر  تھا بھی ۔
 
 مسز جعفری نے میٹرک سے پوسٹ گریجویشن تک کی تعلیم کشمیر یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ابتداء سے آپ کی طبیعت کامیلان نئی نسل کو تعلیم و تربیت دینے کی طرف تھا لہٰذا آپ نے ایم اے کرنے کے بعد بی ایڈکی ڈگری حاصل کی۔ اپنے ارادے اور شوق کو عملی جامہ پہنانے کیلئے آپ نے کیندیا ودیالا،سرینگر میں بحیثیت ٹیچر شروعات کی اور" اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا "کی طرح آج تک پیشۂ تدریس سے وابستہ ہیں۔ 
 
حضرات شادی انسان کی زندگی میں مسرت کی نوید لاتی ہے اور زنیت میڈم کی خوش نصیبی کہ ان کی شادی ہی مسرت سے ہوئی۔ جی ہاں جناب مسرت جعفری اور زینت کی شادی 1976ء میں انجام پائی۔ اس طرح زینت کو مسرت ملی اورمسرت کی زندگی میں زینت آئی۔ میڈم زینت جعفری 41سال سے مسرت کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ان سے گفتگو  کے دوران میں  نے  پوچھا   کہ آپ کو مسرت تلاش کرنی پڑی یا مسرت خود چل کر آئی تھی۔ میڈم جعفری نے مسکرا کر کہا کہ مسرت جعفری اور میں آپس میں کزنز بھی ہیں۔ 
 
زینت جعفری 1978ء میں ریاض منتقل ہوئیں۔ انہوںنے اپنے شریک حیات کے تعاون سے ریاض میں ایک اسکول قائم کیا۔ اس سے قبل ریاض میں ہندوستانی بچوں کیلئے کوئی اسکول نہیںتھا۔ اس اسکول کے قیام کیلئے مسرت جعفری اور زینت جعفری نے دامے، درمے ، سخنے اور قدمے اپنا تعاون دیا اور اپنی بے لوث ،شبانہ روز محنت سے اس اسکول کے قیام کو ممکن بنایا۔ اسی سال اُس وقت کی  وزیراعظم ہند، مسز اندرا گاندھی، ریاض کے دورے پر آئی تھیں۔ زینت جعفری اور مسرت جعفری نے مسز گاندھی سے گزارش کر کے ان کے ہاتھوں اس اسکول کا افتتاح کروایا۔ انڈین کمیونٹی اور سفارت خانۂ ہند کے تعاون سے اسے پروان چڑھایا۔ 
 
 اس صحرائے عرب میں لاکھوں ہندوستانی آئے جنہوں نے  اپنی زندگیاں سنواریں۔ اپنے مقاصد حاصل کئے لیکن مسز زینت جعفری کی زندگی کا مقصد صرف نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا جسے انہوں نے پورا کیا اور 120بچوں کی تعداد سے شروع کیا گیا یہ اسکول آج انٹرنیشنل  انڈین اسکول ،ریا ض کی صورت میں 10ہزار ہندوستانی بچوں کی تعلیمی ضرورت پوری کر رہا ہے۔ مسز جعفری نے اس اسکول میں بحیثیت ٹیچر ، سپروائزر، وائس  پرنسپل اور پھر پرنسپل کے عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ اسکول سے سبکدوش ہونے کے بعد اب وہ یہاں رہنے والی لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے ادارے سے منسلک ہیں۔ لڑکیوں  کی اعلیٰ تعلیم یہاں وقت کی اہم ضرورت تھی جس پر اب مسز جعفری اپنا وقت و توانائی صرف کر رہی ہیں۔ چھوٹا سہی مگر علم کا یہ مینار مسلسل علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ حاضرین کو یہ جان کر خوشی بلکہ حیرت بھی ہو گی کہ مسز جعفری نے انڈین اسکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد انسانی وسائل میںایم بی اے کیا۔
 
مسز جعفری ایک بے حد خوش مزاج اور بذلہ سنج خاتون ہیں۔ بات بات میں مزاح کا پہلو نکالنا ان کی فطرت میں بسا ہے۔ گفتگو کے دوران میں نے مسز جعفری سے پوچھا آپ کے کتنے بچے ہیں تو میڈم نے کہا مجھے صحیح تعداد یاد نہیں۔ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر میڈم نے پھر مسکراتے ہوئے کہا میرے اپنے تو 2لڑکے ہیں لیکن 40سال میں نے اسکول کے بچوں کی تعلیم و تربیت اپنی اولاد کی طرح کی ہے جن کی صحیح تعداد میرے پاس نہیں  مگر آج وہ سارے بچے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے اسکول ، اپنے ملک اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کر رہے ہیں۔ مسز جعفری نے پیشہ تدریس کو کبھی ذریعہ معاش نہیں سمجھا بلکہ اس کا م کو انہوں نے انسانی خدمت کے جذبے سے کیا۔
 
مسز جعفری بیک وقت ایک اچھی سماجی کارکن بھی رہی ہیں۔ وہ مختلف سماجی تنظیموں کے تعاون سے ہمیشہ ریاض کی سماجی سرگرمیوں کا حصہ رہی ہیں۔ انہو ںنے مقدور بھر انسانیت اور سماج کی خدمت کی۔ سماجی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستائشی اسناد اور تمغے ملتے رہے ہیں۔حال ہی میں آپ کو این آر آئیز کو دیئے جانے والے اعلیٰ ترین قومی اعزاز "پرواسی بھارتیہ سمان"سے نوازا گیا۔ مسز جعفری دنیا کی پہلی مسلم خاتون ہیں جنہیں یہ ایوارڈ حاصل ہوا ہے۔ یہ ایوارڈ نہ صرف مسز جعفری کیلئے بلکہ ہم تمام این آر آئیز کیلئے بھی یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔ 
 
حضرات ہم آج تک یہ سمجھتے تھے کہ پولیس کی نظر صرف غیر سماجی عناصر اور مجرمین پر ہوتی ہے لیکن ہمارے اس نظریے کو  سفیر ہند محترم احمد جاوید نے غلط ثابت کر دیا اور یہ بتادیا کہ پولیس کی نظر اچھے اور قابل قدر اشخاص پر بھی ہوتی ہے۔ مسز جعفری جیسی خاموش اور بے لوث سماجی خدمت گزار کو سفیر ہند احمد جاوید  کے دور میں پرواسی بھارتیہ سمان  حاصل ہونا احمد جاوید   کی گوہر شناسی کا ثبوت ہے۔ 
 
آخر میں ہم اس تحریر کو اپنی اس خواہش پر ختم کریں گے کہ رب العالمین مسز جعفری کی خدمت خلق کے جذبے او رعزائم کو قائم رکھے اور انہیں پورا کرنے کیلئے عمر، صحت اور توانائی عطا فرمائے، آمین۔
 
 

شیئر: