Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صنوبر کا جنگل اور خوبصورت محبوب  

صنوبر دنیا کا سب سے سست رفتاری سے بڑھنے والا درخت ہے ّ(فوٹو: ان سپلیش)
ہرے شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دو
زمیں کے جسم پہ کوئی لباس رہنے دو 
گلشن کے لیے فکر مند ہونے والے شاعر ’گلشن کھنہ‘ کی بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ بڑھتی ہوئی ’عالمی حِدّت‘ اور نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمی تغیرات زمین کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔ 
اب شعر بالا کی رعایت سے شجر اور گھاس کی بات کرتے ہیں کہ ان کا امتزاج گلستان و بوستان کو جنم دیتا اور ’فردوس بر روئے زمین است‘ کا منظر پیش کرتا ہے، جس میں خوش رنگ پھول مہکتے اور خوش آہنگ پرندے چہکتے ہیں۔ 
’شجر‘عربی لفظ ہے، جس کا واحد ’شجرۃ‘ اور اس کے فارسی مترادفات ’دار و درخت‘ ہیں۔
مزید پڑھیں
آپ نے تعمیرات میں استعمال ہونے والی لکڑی کی مشہور قسم ’دیار‘ کا نام سنا ہوگا، ’دیار‘ ایک درخت ہے، جو صوتی تبدیلی کے زیر اثر ’دیال‘ بھی کہلاتا ہے۔ یہ درخت بلند و بالا اور گھنا ہونے کے سبب ’دیودار‘ یعنی ’دیو جیسا درخت‘ کہلاتا ہے، اور اپنے اسی وصف کے سبب عربی میں ’شجرۃ الجّن‘ اور انگریزی میں giant tree پکارا جاتا ہے۔ 
اب غور کریں تو درخت ایک ہے، مگر اس کے متعلق تین مختلف خِطوں کی تین مختلف زبانوں میں ایک سا خیال پایا جاتا ہے، جو عمومی انسانی مزاج کی یکسانیت کی دلیل ہے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ لفظ ’دلیل‘ عربی زبان سے متعلق ہے۔ اس کا مادہ ’د ل ل‘ ہے، جب کہ اس کو ’دَّلَالَۃُ‘ سے نسبت ہے، جو ہر اُس شخص یا چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی شے کی معرفت حاصل ہو، جیسے الفاظ کا معنی پر دلالت کرنا اور اشارات و رموز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا وغیرہ۔ 
’دلیل‘ کے عمومی معنی رہنمائی، حجّت، ثبوت، برھان، علامت اور وجہ کے ہیں، تاہم منطق کی اصطلاح میں وہ شے جس کا علم دوسری شے کے علم کا سبب یا علامت ہو ’دلیل‘ کہلاتی ہے۔ 

گھاس انگریزی زبان تک پہنچتے پہنچتے گراس میں بدل گئی ہے۔ فوٹو ان سپلیش

اسی ’دلیل‘ سے ایک لفظ ’مُدَلِّل‘ اور دوسرا ’مُدَلَّل‘ ہے، جن کے بالترتیب معنی ’ثابت کرنے والا‘ اور ’ثابت شدہ‘ کے ہیں، یعنی پہلا لفظ فاعل اور دوسرا مفعول ہے۔ اردو میں ان دونوں الفاظ کے علاوہ اس سلسلے سے بندھے دوسرے الفاظ مثلاً دلائل، دلال، دلالت اور دَلَّا وغیرہ بھی عام استعمال ہوتے ہیں۔  
جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ ’دلیل‘ کے معنی رہنمائی کے ہیں، سو اس رعایت سے عربی میں ’گائیڈ‘ کو بھی ’دلیل‘ کہتے ہیں۔ پھر اس رہنمائی کی رعایت سے اردو میں آڑھتیا اور ایجنٹ ’دلال‘ کہلاتے ہیں، کہ یہ طالب کی مطلوب تک رہنمائی کرتے اور اس کام کی اُجرت پاتے ہیں۔ 
اب ’دلیل‘ کی رعایت سے علامہ اقبال کا ایک مشہور ملاحظہ کریں: 
دلیلِ صُبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی 
اُفُق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی 
اس ’دلیل‘ سے پہلے ’دیودار‘ کا ذکر تھا، اس کی ایک قسم صنوبر کہلاتی ہے۔ اپنے ہم نسل درختوں کی طرح صنوبر بھی ایک قد آور اور سدا بہار درخت ہے، اس خصوصیت کے سبب ’صنوبر‘ مجازاً ’معشوق‘ کے لیے بھی برتا جاتا ہے۔ دیکھیں احمد فراز کیا کہہ رہے ہیں: 
قامت کو تیرے سر و صنوبر نہیں کہا
جیسا بھی تو تھا اس سے تو بڑھ کر نہیں کہا  

’شجر‘ عربی لفظ ہے جس کا فارسی مترادف ’دار و درخت‘ ہے۔ فوٹو ان سپلیش

’صنوبر‘ ایک معرب لفظ ہے، فارسی فرہنگ نویس ’صنوبر‘ کی اصل یونانی زبان سے متعلق بتاتے ہیں، جب کہ یورپی ماہرین لسانیات اسے لاطینی میں یونی پیروس (iuniperus)، قدیم فرانسیسی میں ژینی ور (genevre)، ہسپانوی میں اینی برو (enebro)، پرتگیزی میں زینبرو (zimbro)، اطالوی میں جینی پرو (ginepro)، انگریزی میں جُونیپر(juniper) اور قدیم ولندیزی زبان سے نکلنے والی مغربی جرمن بولیوں (Middle Dutch) میں بصورت ینیفر (genever) شناخت کرنے کے باوجود اس لفظ کی اصل سے لاعملی ظاہر کرتے ہیں۔   
صنوبر کے درخت سے متعلق دو باتیں لائق توجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ دنیا میں صنوبر کا سب بڑا جنگل تاجکستان میں اور دوسرا بڑا جنگل پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام زیارت میں واقع ہے۔
دوسری بات یہ کہ صنوبر دنیا کا سب سے سست رفتاری سے بڑھنے والا درخت ہے۔ بڑھنے کی رفتار سو سال میں بمشکل ایک سے تین انچ تک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صنوبر کی سست رفتاری ضرب المثل بن چکی ہے۔ یقین نہ آئے تو علامہ اقبال کا شعر ملاحظہ کریں جو کہہ گئے ہیں: 
رفتار کی لذت کا احساس نہيں اس کو 
فطرت ہی صنوبر کی محروم تمنا ہے 
اب ’گھاس‘ کی بات کرتے ہیں جو انگریزی زبان تک پہنچتے پہنچتے ’گراس/Grass‘ میں بدل گئی ہے۔ اور اس طویل سفر کے درمیان ایک اس منزل ایک منزل فارسی زبان ہے جس میں یہ گھاس بصورت ’کاہ‘ پکاری ہے۔  

بلند و بالا اور گھنا ہونے کے سبب ’دیودار‘ یعنی ’دیو جیسا درخت‘ کہلاتا ہے۔ فوٹو ان سپلیش

ممکن ہے آپ کے لیے ’گھاس‘ سے ’گراس‘ سے تو قابل فہم ہو، مگر ’گھاس‘ سے ’کاہ‘ سمجھنا مشکل ہو، تو عرض ہے کہ اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’گاف‘ جن حروف سے بدلتا ہے، ان میں ’کاف‘ بھی شامل ہے، مثلاً عربی زبان میں ’سمر قند‘ پکارا جانے والا شہر فارسی میں ’سمرکند‘ کہلاتا ہے۔ ایسے ہی باہم بدل جانے والے حروف میں ہائے ہوز (ہ) بھی شامل ہے، جوحسب موقع ’سین‘ سے بدل جاتا ہے، یوں سنسکرت کا سندھو قدیم پہلوی میں ’ہندو‘ اور سنسکرت ہی کا ماس (چاند) فارسی میں ’ماہ‘ ہے۔ 
اب تبدیلی کے اس اصول کو سامنے رکھیں اور فارسی کے 'کاہ' پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ 'گھاس' ہی کی دوسری صورت ہے۔ پھر فارسی کا 'کاہ' پنجابی میں فقط اتنی سی تبدیلی کے ساتھ موجود ہے کہ اہل پنجاب 'کاہ' کہتے ہوئے حرف 'کاف' کے لیے جو آواز نکالتے ہیں وہ 'کاف اور گاف' کی درمیانی آواز ہوتی ہے۔ مگر اسے لکھا 'کاہ' ہی جاتا ہے۔  

شیئر: