Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حجاب تنازع: انڈین ناظم الامور کی دفترخارجہ طلبی، پاکستان کا احتجاج

پاکستان نے انڈین ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات پر حجاب پہننے کی پابندی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بدھ کو اسلام آباد میں انڈیا کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکےکرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے ناقابل قبول اقدام کی مذمت کی گئی۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مذکورہ اقدام پر حکومت پاکستان کی شدید تشویش اور مذمت سے بھارتی ناظم الامور کو آگاہ کیا گیا۔
بیان کے مطابق ناظم الامور پر زور دیا گیا وہ انڈین حکومت کو پاکستان کے تحفظات کے بارے میں آگاہ کریں، معاملہ خارجی اور اکثریتی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر انسانی اور شیطانی کرنا ہے۔
دوسری جانب انڈین ریاست کرناٹک میں زعفرانی مفلر پہنے انتہاپسندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوکر مزاحمت کی علامت بن جانے والی مسلمان طلبہ مسکان پاکستان میں بھی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئی ہیں۔
ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں یکساں مقبول ہیں۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اپوزیشن کی جماعتیں کسی معاملے پر ایک صفحے پر ہوں۔
لیکن مسکان کی بہادری کے معاملے پر پاکستانی سیاستدانوں میں کوئی تقسیم نہیں پائی جاتی۔
بدھ کو مسکان کی جرات و بہادری کے اعتراف میں پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ٹوئٹر پر مسکان کی تصویر اپنی پروفائل پکچر کے طور پر لگالی۔
؎
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی حجاب کے معاملے پر مسکان کے ہم آواز نظر آئے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’مسلمان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں بنیادی حق نہ دینا اور حجاب پہنے پر انہیں دہشت زدہ کرنا ظلم ہے۔

پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر فیصل سبزواری نے بھی مسکان کی تصویر ٹویٹ کی اور انہیں ’بریو ہارٹ‘ قرار دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی ناز بلوچ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ایک بہادر مسلمان لڑکی ہندو انتہاپسند جتھے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور سوشل میڈٰیا پر مزاحمت کی علامت بن گئی۔‘

مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق بھی مسکان کی ہمت و شجاعت کے معترف نظر آئے۔

واضح رہے انڈین ریاست کرناٹک رواں ہفتے احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں رہی ہے۔ منگل کو کرناٹک کے ضلع شموگا میں زعفرانی مفلر پہنے طلبہ نے حجاب پہنی طالبات کو ہراساں کیا تھا اور طلبہ و طالبات کے درمیان نعرے بازی بھی دیکھنے میں آئی تھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں مسلمان طالبہ مسکان کو زعفرانی مفلروں والے نوجوانوں کے سامنے کھڑے نعرے لگاتے دیکھا گیا تھا۔ مسکان نے انڈین میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس حملے کے دوران بالکل پریشان نہیں تھیں اور وہ حجاب لینے کے حق میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔

شیئر: