Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرناٹک میں حجاب پر پابندی کا تنازع، فیصلہ لارجر بینچ کرے گا

انڈیا میں کرناٹک ہائی کورٹ نے کالجز میں حجاب پر پابندی کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کا معاملہ لارجر بینچ کو بھیج دیا ہے جبکہ کرناٹک پولیس نے  بنگلور میں سکولوں ، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے دو سو میٹر کے دائرے میں دوہفتے کے لیے کسی بھی قسم کے احتجاج اور مظاہرے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ 
بدھ کو کرناٹک ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے جسٹس کرشنا ڈکشٹ نے مقدمے کو کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینج کو بھیجنے کا حکم نامہ جاری کرے ہوئے کہا کہ یہ پرسنل لاز کا معاملہ ہے اور اس قسم کے معاملات کے لیے عموماً لارجر بینچ فیصلہ کرتا ہے۔ 
دوسری جانب ریاست کرناٹک میں احتجاجی مظاہروں اور حجابی خواتین کو تعلیمی اداروں میں انتہاپسندوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے باوجود کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت تعلیمی اداروں میں مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر عائد پابندی نہیں ہٹائے گی۔
انڈین چینل ’سی این این نیوز 18‘ کے مطابق بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت حجاب پر عائد پابندی پر کوئی ’سمجھوتا‘ نہیں کرے گی۔
انڈیا میں مزاحمت کی علامت بن جانے والی’حجابی گرل‘مسکان کون ہیں؟
واضح رہے انڈین ریاست کرناٹک رواں ہفتے احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں رہی ہے۔ منگل کو کرناٹک کے ضلع شموگا میں زعفرانی مفلر پہنے طلبہ نے حجاب پہنی طالبات کو ہراساں کیا تھا اور طلبہ و طالبات کے درمیان نعرے بازی بھی دیکھنے میں آئی تھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں مسلمان طالبہ مسکان کو زعفرانی مفلروں والے نوجوانوں کے سامنے کھڑے نعرے لگاتے دیکھا گیا تھا۔ مسکان نے انڈین میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس حملے کے دوران بالکل پریشان نہیں تھیں اور وہ حجاب لینے کے حق میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
انڈیا کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے حجاب سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنی ایک ٹویٹ میں پریانکا گاندھی کا کہنا تھا کہ یہ ہر عورت کا حق ہے کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ اسے کس قسم کا لباس زیب تن کرنا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ عورت کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گھونگھٹ لے، جینز پہنے یا حجاب کا استعمال کرے۔
’یہ حق اسے انڈیا کے آئین نے دیا ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنا بند کیا جائے۔‘

انڈیا میں معروف شخصیات ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا ذمہ دار وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کو ٹھہراتے ہیں۔
انڈین صحافی رعنا ایوب نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’جب 2019 میں مودی اپنی جیت کے بعد تقریر کررہے تھے اور بات کررہے تھے اقلیتوں کے تحفظ کی تو میں نے کئی صحافیوں کی تویٹس دیکھیں جس میں کہہ رہے تھے کہ انہیں (وزیراعظم مودی) کو ایک موقع دینا چاہیے باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنے پہلے ٹرم میں نفرت پھیلائی تھی۔‘
انہوں نے مسکان کی ویڈیو لگاتے ہوئے مذکورہ صحافیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ویڈیو میں آپ سب کو ڈیڈیکیٹ کرتی ہوں۔ ایک اور چانس دیں؟‘
معروف انڈین وکیل دشینت دیو کرناٹک میں عائد ہونے والی پابندی کی وجہ اتر پردیش (یو پی) میں ہونے والے انتخابات کو سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یو پی کے انتخابات بی جے پی کے لیے بہت اہم ہیں۔ کرناٹک میں جو ہو رہا ہے اس کی ویڈیوز دراصل یو پی میں جمع ہجوم کے لیے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے یہ ویڈیوز یو پی میں بدلہ لینے کی نیت سے پھیلائی جارہی ہوں گی۔‘

پاکستانی صارفین مسکان کی بہادری کے معترف

سوشل میڈیا پر مسکان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پاکستانی رہنما بھی ان کی تعریفیں کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان کی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’یہی ہے جس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان مغرب کو انتباہ جاری کررہے ہیں۔‘
’آر ایس ایس کے ہندتوا فاشزم نے انڈیا کو عدم برداشت کا شکار اور اقلیتوں کے لیے ایک خطرناک ملک بنادیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اور وفاقی وزیر اسد عمر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’سلام اس بچی کی بہادری پر۔ بھارت کے حالات دیکھ کر قائداعظم، ان کے ساتھیوں اور اپنے بزرگوں کی، جنہوں نے ہمیں آزادی میں زندگی گزارنے کے لیے قربانی دی، کی قدر میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔‘

دوسری جانب مسکان نے ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے انہیں برقع اتارنے کا کہہ رہے تھے۔
مسکان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنے کلچر کی پیروی کرے۔ براہِ مہربانی ہمیں پریشان نہ کریں۔‘
’میں اپنے حق کے لیے لڑرہی ہوں، تعلیم کے لیے لڑرہی ہوں۔‘

شیئر: