Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور ہائی کورٹ: شہریوں کو بلیک لسٹ کرنے کا قانون کالعدم قرار

عدالت نے پاسپورٹ اینڈ ویزہ مینول 2006 کا پیرا 51 کالعدم قرار دے دیا۔(فوٹو: اے ایف پی)
لاہور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے مقدمات کا سامنا کرنے والے دو شہریوں کو بلیک لسٹ کرنے کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے بلیک لسٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
 جسٹس طارق سیلم شیخ نے قرار دیا ہے کہ کیس کا فیصلہ نہ ہونے پر ملزم کو بیرون ملک سفر کرنے کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
عدالت نے پاسپورٹ اینڈ ویزہ مینول 2006 کا پیرا 51 کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے شہری شان الہی اور سید انور شاہ کی بلیک لسٹ ہونے کے خلاف دائر  الگ الگ درخواستوں پر 21 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سفر کا بنیادی حق عالمی طور پر جانا جاتا ہے جو کہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ ’یونیورسل ڈکلیئریشن آف ہیومن رائٹس 1948 کے آرٹیکل 13 کے تحت  ہر کسی کو کسی بھی ریاست میں آنے جانے کی اجازت ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 15 بھی فریڈم آف موومنٹ کی بات کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت ہر شہری کو قوانین میں لگائی پابندی کے اندار  گھومنے کی آزادی ہے۔ ‘
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 15 واضح کرتا ہے کہ لگائی گئی پابندیاں نا صرف  معقول ہو بلکہ عوامی مفاد میں بھی ہو۔
 فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ’پاسپورٹ ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت پاسپورٹ وفاقی حکومت کی پراپرٹی ہے جو شہری سے واپس لینے یا کینسل کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم سب سیکشن ٹو کے تحت ایسا کرنے سے پہلے وفاقی حکومت شہری کو حکم جاری کرنے سے دو ہفتے پہلے نوٹس جاری کرنے کی پابند ہے۔ تاہم سب سیکشن  تھری کے تحت اگر وفاقی حکومت کے پاس واضح شواہد موجود ہوں کہ متعلقہ شحص کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہے جو ملک کے خلاف ہے  تو شوکاز نوٹس بھی ضرورت نہیں۔‘

عدالتی فیصلے میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی 2004 میں وطن واپسی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ موجودہ کیسز میں وفاقی حکومت نے نا ہی درخواستگزاروں سے پاسپورٹ واپس مانگا اور نا ہی کینسل کیا۔
’درخواست گزاروں کے خلاف  پاسپورٹ اینڈ ویزہ مینول 2006 کے پیرا 51 کے تحت کارروائی کی گئی، پاسپورٹ ایکٹ کا سیکشن 8 وفاقی حکومت کو صرف پاسپورٹ کینسل یا ضبط کرنے کا اختیار دیتا ہے بلیک لسٹ کرنا ایک بالکل الگ معاملہ ہے اور اسکا مفہوم بھی الگ ہے۔‘
 جسٹس طارق سیلم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ وزارت داخلہ نے مینول پاسپورٹ اور ویزہ پروسیجر ایشو کیا۔ ’سیکشن 13 وفاقی حکومت کو آفیشنل گزٹ کے ذریعے رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے جب کہ یہ حکومت کو محکموں اور دفاتر کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار ہے۔ یہ بھی طے شدہ ہے ایسے نوٹیفکیشن اور ہدایت آئین سے متصادم نہیں ہونے چاہیے۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ رولز 1974 بھی  پاسپورٹ اینڈ ویزہ مینول 2006 کے پیرا 51 کے حوالے سے خاموش ہے لہذا پیرا 51 غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔
فیصلے کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ پیرا 51 کو کالعدم قرار دینے کے اثرات خوفناک ہوں گے۔ تاہم عدالت نے واضح کیا کہ اس نے کیسز کا فیصلہ قانون کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایف آئی اے نے بیان دیا کہ انہوں نے سپشل سینٹرل کورٹ کے کہنے پر بلیک لسٹ کیا جبکہ سینٹرل کورٹ نے واضح کیا کہ ایسا کوئی حکم جاری نہں کیا گیا۔
’اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوامی مفاد کے لیے انصاف کرنا ضروری ہے تاہم ہر کیس کے حقائق الگ ہوتے ہیں اور وفاقی حکومت ایسے ہی پاسپورٹ کینسل، ضبط اور بلیک لسٹ نہیں کرسکتی۔ انتہائی اقدام سے پہلے ہر کیس کا مکمل جائزہ لینا چاہیے۔‘
عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار شاہ الہی کو بلیک لسٹ کرنے کوئی جواز نہیں تھا۔ درخواست گزار انور شاہ کے  کیس  کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا تاہم یہ گراؤنڈ کسی کو بیرون ملک سفر کرنے  کے حق سے محروم نہیں رکھ سکتی۔ عدالت نے کہا کہ دونوں درخواستیں منظور کرتے ہوئے بلیک لسٹ کرنے کااقدام غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے پاسپورٹ اینڈ ویزہ مینول 2006  کے پیرا 51 کے تحت ملزمان کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

عدالتی فیصلے میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی 2004 میں وطن واپسی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
درخواست گزار کے مطابق ایف آئی اے نے شان الہی اور ان کے بھائی عرفان الٰہی پر شہری کو بیرون ملک بھجوانے کے فراڈ کا مقدمہ درج کیا۔ تاہم ایف آئی اے نے بعد ازاں دونوں ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا۔ 
دونوں ملزمان کے خلاف مدعی نے سپشل سینٹرل کورٹ میں استغاثہ دائر کیا، تاہم اس دوران ملزمان بیرون ملک جا چکے تھے۔ عدالت نے استغاثہ میں پیش نہ ہونے پر دونوں ملزمان کو اشتہاری قرار دیا تھا۔
عدالت نے  ڈی جی ایف آئی اے کو تمام امیگریشن پوائنٹس پر ہدایات دینے کا حکم دیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے پاسپورٹ اینڈ ویزہ مینول 2006  کے پیرا 51 کے تحت ملزمان کو بلیک لسٹ کردیا۔
عرفان الٰہی کچھ عرصہ بعد پاکستان آیا اور قانون کا سامنا کیا اور خود کو کلیئر کرایا۔ درخواست گزار شان الہی تاحال قانون سے فرار ہے اور دبئی میں موجود ہے۔ درخواستگزار کے پاسپورٹ کی معیاد 2020 میں ختم ہوئی اور بلیک لسٹ ہونے کے باعث رینیو نہیں ہوسکا۔
دوسری درخواست میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ انوار شاہ اور ان کی بیوی اوورسیز پاکستانی ہیں جو کہ سعودی عرب میں رہ رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل درخواست گزار کی بیوی چھ ہفتوں کے وزٹ پر پاکستان آئی تو واپسی پر بیوی کو ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور بتایا گیا کہ ان کا شوہر ایک مقدمے میں اشتہاری اور بلیک لسٹ ہے۔
ایف آئی اے نے بیوی کو گرفتار کرلیا تاہم عدالت نے ضمانت دے دی۔ کچھ عرصے بعد درخواست گزار بھی پاکستان آیا اور مقدمے کا سامنا کیا اور عدالت سے ضمانت لی۔ درخواست گزار نے بلیک لسٹ ہونے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
 

شیئر: