Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہیکرز لاہور کی اے ٹی ایم مشینوں سے کروڑ روپے کیسے لے اُڑے؟ 

ایف آئی اے حکام کہتے ہیں کہ ’جن مشینوں کے ذریعے فراڈ کیا گیا وہ تمام نئی تھیں‘ (فائل فوٹو: پکسابے)
پاکستان کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے آج کل ایک ایسے معاملے پر تحقیقات کررہا ہے جس میں لاہور میں کئی بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں سے ہیکر ایک کروڑ روپے کیسے نکال کرلے گئے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور سرکل میں درج ایک ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق فروری کے دوسرے ہفتے میں 14 اے ٹی ایم مشینوں میں رات گئے ایک کروڑ روپے سے زائد نکال لیے گئے ہیں۔  
مقدمے کی تفتیش کرنے والے ایک افسر محمد شکیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ کام ایک ہی گینگ نے کیا ہے اور اس دفعہ یہ سکیمنگ فراڈ نہیں تھا۔‘
’یعنی اس میں ٹارگٹ کر کے کسی صارف کے اے ٹی ایم کی معلومات چُرا کر ان کو استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ڈیٹا کیبلز کو کاٹ کاٹ کر کسی ڈیوائس سے جوڑ کر اور ہیک کر کے سسٹم سے پیسے نکالے گئے ہیں۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’اے ٹی ایمز پر کیمرے خراب تھے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ ہیکرز نے پہلے اچھے طریقے سے ریکی کی اور اس کے بعد مختلف اے ٹی ایمز کو نشانہ بنایا ’تاہم کچھ مشینوں کے اندر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کام کررہے تھے۔‘
’ان کی فوٹیج حاصل کر لی گئی ہے اور اس حوالے سے ٹیمیں ملزمان کی شناخت کررہی ہیں اس حوالے سے نادرا اور دیگر اداروں سے بھی معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔‘  
ترجمان ایف آئی اے نے اردو نیوز کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سائبر کرائم ونگ اس معاملے پر تحقیقات کررہا ہے اس لیے اس وقت میڈیا کے ساتھ زیادہ معلومات شیئر نہیں کی جاسکتیں جبکہ ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔  
ایف آئی اے حکام کے مطابق پاکستان میں ہر سال الیکٹرانک بینکنگ جرائم کے اوسطاً دو ہزار کیسز سامنے آتے ہیں، ان میں لوگوں کی بینک اکاؤنٹس سے متعلق معلومات کو استعمال کرتے ہوئے پیسے نکلوانا سرفہرست ہے۔  

’ہیکرز نے لوگوں کے اکاؤنٹس سے پیسے نہیں نکالے بلکہ مشینوں کو الیکٹرانک طریقے سے کھولا گیا ہے‘ (فائل فوٹو: پکسابے)

تاہم یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں ہیکرز نے براہ راست سسٹم کو ہیک کیا ہے۔ تفتیشی افسر کے مطابق ’اس کو آپ ایک طرح سے چوری کہہ سکتے ہیں کہ اس میں لوگوں کے اکاؤنٹس سے پیسے نہیں نکالے بلکہ مشینوں کو الیکٹرانک طریقے سے کھولا گیا ہے۔‘
ایف آئی اے حکام کہتے ہیں کہ اس میں بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام مشینیں نئی تھیں۔ حال ہی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے بینکوں کو اے ٹی ایم مشینز کو اپ گریڈ کرنے، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز اپ گریڈ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ تقریباً تمام بینکوں نے اپنے نظام اپ گریڈ کر لیے ہیں۔ یہی اچنبھے کی بات ہے کہ ایک ہی کمپنی کی مشینوں کو کھولا گیا ہے۔‘  
یاد رہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے تمام پاکستانی بینکوں کو اپنے نظام اپ گریڈ کرنے اور اے ٹی ایم مشینز کو نئے بین الاقوامی معیار کے مطابق کرنے کی ہدایات سال 2020 سے کر رکھی ہیں۔ نئی اے ٹی ایم مشینز میں لاگن انگوٹھے کے نشان سے بھی کیا جاسکتا ہے اور کارڈ کو ٹچ کر کے بھی پیسے نکالے جاسکتے ہیں۔  

ایف آئی اے کے مطابق ’تحقیقات کے لیے نادرا اور دیگر اداروں سے بھی معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے‘ (فائل فوٹو: ایف آئی اے)  

تفتیشی افسر کے مطابق ’جن کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج پر تحقیق کی جارہی ہے اس میں بھی ایک مشکل یہ ہے کہ ملزمان نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔‘
’اس لیے اب تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سیف سٹی اٹھارٹی سے بھی مدد لی جارہی ہے تاکہ سڑکوں پر ان ملزمان کی نقل و حرکت کے ذریعے ان کی شناخت کی جاسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جلد ان ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘  

شیئر:

متعلقہ خبریں