Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حقیقی خدمت مقصود تھی تو پہلے نالہ بند کراتے

اگر کئی سال کی پریشانی کے باوجود کوئی حل نہیں نکالاجا سکا تو ہمیں خودابتداء کرنی چاہئیے

- - - - - - -

اُم مزمل ۔ جدہ

- - - - - - -

وہ جب رخصت ہوکر اس جگہ پہنچی جہاں زندگی کی رعنائی سہولتوں کے فقدان کے باعث معدوم تھی، وہ پوچھ بیٹھی کہ آپ لوگ اس علاقے میں کتنے عرصے سے رہ رہے ہیں؟ وہ بتانے لگے کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو بھی اسی علاقے میں رہتے تھے۔ وہ تعجب کرنے لگی کہ کیا اس وقت بھی ایسا ہی تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کیلئے جس لوہے کی شیٹ راستے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے نیچے نالہ بہتا ہے۔ وہ لوگ اسی کو سڑک کے طور پر استعما ل کرکے فاصلہ طے کیا کرتے تھے۔ وہ بتانے لگا کہ اس جگہ کوئی چیز نہ تھی ،بس لوگوں نے گاؤں گوٹھوں سے آکر یہاںکچی بستی بنالی تھی۔

انہیں آہستہ آہستہ زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر آگئیں لیکن سڑک نہ بن سکی اورکثیف نالہ بھی صاف نہیں کیا جاسکا ، نہ ہی اسے بند کیا گیا۔ دراصل یہ ریاست کاکام ہے کہ وہ عوام کی سہولت کیلئے اقدامات کرے۔ وہ حیرت سے چند ثانیے خاموش رہ کر پوچھنے لگی کہ’’ہم عوام کی کیا ذمہ داری ہے ؟‘‘ وہ تفصیل سے بتانے لگا کہ ہمیں اپنی ریاست کو یاد دلاتے رہ چاہئے کہ ہماری بستی میں فلاں فلاں بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی کے باعث لوگوں کو پریشانی ہے۔ درخواست ہے کہ جلدازجلد بستی کی طرف توجہ دی جائے اور مسائل حل کئے جائیں۔ وہ ساری بات سننے کے بعد کہنے لگی کہ کتنی مرتبہ آپ لوگوں نے یادداشت بھیجی؟ آپ نے اخبارات کے ذریعے اپنی بات آگے تک پہنچائی ہوگی لیکن ایک پوری نسل جوان ہوگئی ،چند مہینوں کا کام انجام نہ پاسکا۔ وہ اسکی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہہ رہاتھا کہ اب توزندگی اتنی آسان زندگی ہوئی ہے کہ لوہے کے پٹے سے گزر کر اپنی روزی روٹی کمانے، تعلیم حاصل کرنے اور بیمار ہوں تو علاج کیلئے جاسکتے ہیں ۔ دراصل ہمارے محلے میں تقریباً روزانہ ہی کسی نہ کسی گھر سے کوئی نہ کوئی مریض قریبی اسپتال جاتا ہے ۔

یہی مقام شکر ہے کہ لوگوں نے علاج معالجے کیلئے مختصر عملے پر مبنی چھوٹا سا سستا اسپتال بنا دیا ہے تاکہ لوگوں کو بیماری کا علاج میسر آ سکے ۔ وہ معصومیت سے کہنے لگی کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر لوگ بیماری کو اپ روزگار نہ بتے بلکہ اگر عوام کی حقیقی خدمت مقصود تھی تو انکی صحت کے تحفظ اور ترقی کیلئے پہلے نالہ بند کراتے اور اس آبادی کو افرادی قوت کے طور پر بہترین استعمال میں لاتے ۔ پہلے بیمار کرنا او رپھر علاج کے بہانے پیسے کمانا ،یہ کیسی خدمت ہے؟ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر یہ مسئلہ ہم محلے دار مل کر حل کرسکتے ہیں تو ضرور کریں گے۔

تیسرا ہفتہ بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ لوگ اس سے ملنے اسکے گھر آنے لگے۔ وہ بتا رہی تھی کہ ہر کام حکومت او رریاست کا نہیں ہوتا، اگر کئی سال کی پریشانی کے باوجود کوئی حل نہیں نکالاجا سکا تو ہمیں خودابتداء کردینی چاہئے۔ جب کام شروع ہوگا تو انجام تک ضرور پہنچ جائے گا۔ سب حیران و پریشان تھے کہ ہم غریب لوگ کیا کرسکتے ہیں؟ وہ اس لے کو بھرنے کا طریقہ بتانے لگی کہ محلے بھر کے کچرے کو اس گہرے لے میں ڈال کر سیمنٹ، ریت اور استعمال شدہ اینٹیں جو کہ کسی گھر کی دوبارہ تعمیر کے وقت چھوٹے ٹکڑوں میں ڈھیر کی صورت مل جاتی ہیں، وہ کچرے پر ڈال کر برابر کردیا جائے اور اگر بالکل سڑک کی طرح نہ بھی بنایا جاسکے تو کم ازکم نالہ بند کرکے اس آلودہ ماحول سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے۔

وہ کتاب میں پڑھی بات بتانے لگی کہ جب پاکستان بناتھا تو کئی مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل تھے لیکن راتوں رات ایسی سازش کی گئی کہ نصف کشمیر کے علاوہ آسام اور بنگال کو پاکستان میں شامل ہونے سے روک دیاگیا۔ پاکستان کو وہ زمین دی گئی جو بنجر تھی لیکن ذہین لوگوں نے اس بنجر زمین کو کئی کئی فٹ گہراکھود کر مٹی نکال کر اچھے علاقے سے مٹی لاکر اس جگہ کو پُر کردیا۔ پھر مالٹا، موسمی کی شاخیں ملاکر لگائی گئیں اور دنیا کا بہترین پھل کینو کاشت ہونے لگا۔ یہی محنت جاری رکھی گئی اور ہم خود کفیل ہوگئے۔ہمارے وطن میں دنیا کا بہترین پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ دنیا میں لوگ ہماری جتنی بھی راہ کھوٹی کرنے کی کوشش کریں، جب ہم مالک حقیقی سے مانگیں گے تو ہمیں ہر نعمت میسر آئے گی، یہ ہمارا ایمان ہے ۔ وہ کام کا آغاز کرتے ہوئے کہنے لگی کہ اپنے اپنے گھروں میں موجود تین یا چار فٹ کی کیاریوں کی زمین کی مٹی نکال کر اس نالے میں ڈال دیں اور پھر اچھی مٹی سے پُر کرکے ہم اس میں سبزیاں اُ گائیں گے۔

شیئر: