Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحت کارڈ پروگرام میں او پی ڈی کو شامل کیا جائے: حکومتی تھنک ٹینک

اس وقت صحت سہولت پروگرام کے تحت صحت کارڈ صرف ان ڈور ٹریٹمنٹ کے اخراجات ادا کرتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت صحت کارڈ پروگرام کو غریبوں کے لیے ایک گیم چینجر کے طور پر پیش کرتی ہے تاہم ایک سرکاری تھینک ٹینک نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ پاکستانی اپنی جیب سے صحت پر جو سالانہ اخراجات کرتے ہیں، وہ زیادہ تر او پی ڈی میں خرچ ہوتے ہیں جو صحت کارڈ میں شامل ہی نہیں ہے۔
تحقیق کے مطابق ’پاکستان میں شہری اپنی جیب سے سالانہ 650 ارب روپے صحت کے اخراجات پر خرچ کرتے ہیں جن میں 73 فیصد او پی ڈی پر خرچ ہوتا ہے، جو حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے صحت کارڈز میں دستیاب نہیں ہے۔‘
اردو نیوز کے پاس دستیاب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صحت سہولت پروگرام کے تحت جاری کیا گیا صحت کارڈ لوگوں کو غربت سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم اس کارڈ سے بھرپور فائدہ صرف تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب او پی ڈی یعنی شعبہ بیرونی مریضاں پر بھی اسے استعمال کیا جا سکے۔
اس وقت صحت سہولت پروگرام کے تحت صحت کارڈ صرف ان ڈور ٹریٹمنٹ کے اخراجات ادا کرتا ہے یعنی اس سہولت سے فائدہ صرف تب اٹھایا جا سکتا ہے جب مریض کو ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان صحت کارڈ پروگرام کو پاکستان میں صحت کے شعبے میں انقلاب قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ مہینے بہاولپور ڈویژن کے لیے نیا پاکستان قومی صحت کارڈ پروگرام کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’پنجاب میں نیا پاکستان قومی صحت کارڈ پروگرام پرچار سو ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ یہ سہولت اس وقت پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زِیر انتظام کشمیر میں مہیا ہے۔‘

شجاعت فاروق نے کہا کہ ’حکومت نے موجودہ پروگرام کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا رکھا ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پائیڈ کی تحقیق کے مطابق پروگرام کا فائدہ سیکنڈری اور ٹرژری ہیلتھ کیئر کے لیے ہو رہا ہے۔
حکومتی تھنک ٹینک نے سفارش کی ہے کہ ان ڈور اخراجات کم کرنے کے لیے پروگرام کو انڈوومنٹ فنڈ قائم کرنا چاہیے جس کے ذریعے دائمی مریض پر خرچ کی حد ختم کی جا سکے۔ مثال کے طور پر گردوں کے ڈائیلاسس کا مریض اپنے کارڈ کی ساری رقم چند ماہ میں ختم کر دیتا ہے اور باقی خرچ جیب سے کرنا پڑتا ہے۔

صحت سہولت پروگرام میں کیا مسائل ہیں؟

پائیڈ کی اس تحقیق کے شریک مصنف شجاعت فاروق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے موجودہ پروگرام کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا رکھا ہے جس کے تحت نا صرف شہریوں کی انشورنس کے پیسے حکومت دیتی ہے بلکہ سرکاری ہسپتالوں کا بجٹ بھی اسے دینا ہوتا ہے۔‘
ریسرچ سکالر کے مطابق کئی سکینڈے نیوین ممالک جیسے ناروے، سویڈن، ڈنمارک وغیرہ میں صحت کی تمام سہولیات حکومت مفت میں دیتی ہے جبکہ امریکہ جیسے ممالک میں شہری تمام صحت کے اخراجات انشورنس کے ذریعے پورے کرتے ہیں، مگر پاکستان کا صحت سہولت پروگرام ان میں سے ایک کے ساتھ بھی مکمل مطابقت نہیں رکھتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’صحت سہولت پروگرام میں اخراجات کا دوہرا ضیاع بھی ہو رہا ہے کیونکہ فوج اور دیگر اداروں کے سرکاری ملازمین نا صرف اپنے اداروں کی مفت صحت سہولیات بھی حکومت سے لیتے ہیں بلکہ انشورنس کی مد میں ان کے کارڈ کے اخراجات ایک بار پھر حکومت کو دینے پڑتے ہیں۔‘
شجاعت فاروق نے مزید کہا کہ صحت پر کوئی شخص شوقیہ خرچ نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ ہمیشہ مجبوری کا خرچ ہوتا ہے اس لیے پرائیویٹ علاج کروانا ایک عیاشی نہیں بلکہ مجبوری ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت صحت کارڈ پروگرام کو غریبوں کے لیے ایک گیم چینجر کے طور پر پیش کرتی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان کی 83 فیصد آبادی پرائیویٹ علاج کرواتی ہے

تحقیق کے مطابق پاکستان میں حکومت صحت کی سہولیات پر اپنے مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک اعشاریہ دو فیصد خرچ کرتی ہے جس کی وجہ سے صحت کی سرکاری سہولیات پوری آبادی کے لیے کافی نہیں ہوتیں۔
نیشنل ہیلتھ اکاونٹ رپورٹ برائے سال 2017/18 کے مطابق ’پاکستان کی 83 فیصد آبادی پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کروانے پر مجبور ہے جس کی وجوہات سرکاری سہولیات کی عدم دستیابی یا ان کا غیر معیاری ہونا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اوسطاً تقریبا تین ہزار روپے سالانہ صحت کے لیے خود پر خرچ کرتا ہے اور اس طرح شہری اپنی صحت پر کُل 650 ارب روہے خرچ کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’ان 650 ارب روپے میں سے تقریباً 73 فیصد اخراجات شعبہ بیرونی مریضاں پر خرچ ہوتے ہیں صرف 20 فیصد اندرونی مریضاں یعنی سرجری وغیرہ پر جبکہ باقی اخراجات خود سے ادویات خریدنے یا دیگر پر خرچ ہوتے ہیں۔‘
’ایک عام خاندان گھر کے خرچ میں سے پانچ فیصد صحت  پر خرچ کرتا ہے۔‘

صحت کارڈ سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے

پائیڈ کی تحقیق کے مطابق ایمرجنسی یا شدید بیماری پر ہونے والے اخراجات صحت کے حوالے سے سب سے زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ خاندان اپنے دیگر اخراجات ختم کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اکثر قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔
 حکومتی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تباہ کن اخراجات سے مراد صحت پر ہونے والا وہ خرچ ہے جو گھر کے کل خرچ کا 10 فیصد یا خوراک کے علاوہ گھر کے کل خرچ کا 40 فیصد تک ہو۔
اس تباہ کن خرچ کی وجہ سے کئی لوگ علاج ہی نہیں کرواتے یا پھر مزید غربت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے اخراجات کم کرنے سے غربت میں کمی کی جا سکتی ہے۔

تحقیق کے مطابق پاکستان میں حکومت صحت کی سہولیات پر اپنے مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک اعشاریہ دو فیصد خرچ کرتی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پائیڈ کا کہنا ہے کہ ’اگر لوگوں کو صحت کے اخراجات جیب سے ادا نہ کرنے پڑیں تو آٹھ فیصد لوگ غربت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ شرح ان ہاؤس مریضوں اور دیہی علاقوں کے لیے اور بھی زیادہ ہے۔‘
تحقیق کے مطابق صحت سہولت پروگرام سماجی بہبود کی اصلاحات میں انتہائی اہم ہے جس کے باعث غریب افراد بھی عزت سے صحت کی ان ڈور سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے صحت کارڈ پروگرام غربت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

شیئر: