Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اتحادیوں کے خطرناک اشارے، کیا پارٹی واقعی اوور ہو گئی ہے؟

پرویز الہی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان سو فیصد مشکل میں ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے کھل کر اپوزیشن کے ساتھ جانے کے عندیے اور ایم کیو ایم کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات طے پا جانے کی اطلاعات کے بعد یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا حکومت کے لیے پارٹی اوور ہو گئی ہے اور کیا اب صرف رسمی کارروائی باقی ہے۔
حکومتی اتحادیوں کے واضح اشاروں کے باوجود ابھی باضابطہ طور پر کسی بھی اتحادی جماعت نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا۔ پرویز الٰہی کے حالیہ انٹرویو نے حکومتی ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں مگر انہوں نے بھی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا کھلے لفظوں میں اعلان نہیں کیا بلکہ کہا کہ سب اکٹھے فیصلے کریں گے، جس کے تقریباً قریب پہنچ چکے ہیں۔ 
اسی طرح ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں تو کہا گیا کہ ’تمام معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے‘ مگر ایم کیو ایم کے بیان میں کہا گیا کہ مشاورت جاری ہے۔ گویا ابھی تک رسمی طور پر اتحادیوں کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان نہیں ہوا ہے۔
اتحادیوں کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا سب سے بڑا اشارہ اس وقت سامنے آیا جب منگل کی شب پاکستانی چینل ’ہم نیوز‘ کے ساتھ انٹرویو میں ق لیگ کے اہم رہنما پرویز الٰہی نے کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان 100 فیصد مشکل میں ہیں کیونکہ سارے اتحادیوں کا 100 فیصد رجحان اپوزیشن کی جانب ہے۔‘
انہوں نے عمران خان کی حکومت پر کافی تنقید بھی کی تھی اور اسے ایک بچے سے بھی تشبیہہ دی جسے چلنا نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیش کش کی ہے اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ ان کی بات چیت کے ضامن سابق صدر آصف زرداری ہیں۔
اس بیان اور پھر ایم کیو ایم کے اپوزیشن کے ساتھ مسلسل رابطوں کے بعد یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت کے بڑے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔
اتحادی کیوں اہم ہیں؟
قومی اسمبلی میں اپوزیشن دیکھیں تو 342 کے ایوان میں حکومت کے پاس اس وقت اتحادیوں سمیت 179 ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 162 ارکان ہیں جبکہ ایک نشست پی ٹی آئی کے ایم این اے خیال زمان کی وفات کی وجہ سے خالی ہے۔

پرویز الٰہی نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا۔ فوٹو: مسلم لیگ ق میڈیا

وزیراعظم کی نشست کے لیے 172 ووٹ درکار ہیں اور جس جماعت کے پاس ارکان اسمبلی کا یہ جادوئی نمبر آ جائے گا وہ ہی حکومت بنائے گی۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس بظاہر 179 ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن کے 162 ہیں لیکن ایک نشست پی ٹی آئی کے ایم این اے خیال زمان کی وفات کی وجہ سے خالی ہے۔
اس صورتحال میں اگر مسلم لیگ ق کے پانچ  اور ایم کیو ایم کے سات ارکان بھی حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن کے ساتھ ہو جائیں تو قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے پاس صرف 167 ووٹ رہ جائیں گے اور وہ اکثریت کھو دیں گے۔
اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے پانچ ارکان ہیں اور اس کی بھی اکثریت اپوزیشن کی طرف جھکاؤ ظاہر کر ہی ہے۔ یاد رہے کہ ان تینوں اتحادیوں نے طے کر رکھا ہے کہ وہ مل کر فیصلہ کریں گے۔ گویا اس وقت اتحادی تُرپ کا وہ پتہ ہے جو فیصلہ کن حثییت رکھتا ہے۔
بدھ کو وزیردفاع پرویز خٹک سے منسوب ایک بیان مقامی میڈیا پر چلا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت مسلم لیگ ق کو پانچ ووٹوں کے لیے وزارت اعلیٰ نہیں دے سکتی جس پر ق لیگ کے رہنما مونس الہی نے ٹویٹ کی کہ پرویزخٹک سے ہر دوسرے دن رابطہ ہوتا ہے بہتر ہے خود سے منسوب اس بیان کی وضاحت کر دیں۔
اس ٹویٹ کے بعد پرویز خٹک نے بھی ٹویٹ کر کے خود سے منسوب بیان کو غلط قرار دیا اور واضح کیا کہ ایسا کوئی بیان انہوں نے نہیں دیا۔ گویا حکومت کی جانب سے بھی راستے کھلے رکھنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پرویز خٹک کی وضاحت کے بعد مونس الہی نے بھی شکریہ کی ٹویٹ کی۔
ان وضاحتوں کے علاوہ بھی حکومتی اتحاد ابھی تک برقرار رہنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ق سمیت اتحادی جماعتوں کے پاس وفاق اور صوبے میں وزارتیں اور اہم عہدے ابھی تک موجود ہیں۔ کسی علیحدگی کے اعلان کی صورت میں ان سب کو اپنےعہدے چھوڑنا ہوں گے اور باقاعدہ طور پر اپوزیشن بنچوں پر جانا ہو گا۔
اتحادیوں کے اعلان میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
مسلم لیگ ق  نے چند روز قبل کہا تھا کہ فیصلہ کر چکے ہیں اور جلد اعلان کریں گے مگر ان کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن یا حکومت کے ساتھ جانے کا اعلان اب تک نہیں ہوا نہ ہی ایم کیو ایم یا باپ پارٹی کی جانب سے ایسا اعلان سامنے آیا ہے تو آخر اس تاخیر کی وجہ کیا ہے؟
اس حوالے سے مسلم لیگ ق کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تاخیر کی ایک وجہ 23 مارچ کو پاکستان میں ہونے والی اسلامی کانفرنس تنظیم کی وزرائے خارجہ کانفرنس ہے جس میں دنیا بھر سے مہمان وزرائے خارجہ آئیں گے۔ ان کے مطابق اس کانفرنس سے قبل اتحادیوں کی جانب سے حکومت چھوڑنے کا اعلان ملک میں ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے اس لیے 24 مارچ تک انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ اس طرح کا اعلان کیا جا سکے۔

شیئر: