Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں حکومت ٹیوشن سینٹرز کی رجسٹریشن کیوں کر رہی ہے؟ 

ٹیوشن سینٹرز کلاس اول سے گریجویشن اور مقابلے کے امتحانات تک کے لیے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: جی آئی یو)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکومت نے ٹیوشن سینٹرز اور پرائیویٹ اکیڈمیوں کو رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جمعے کو جاری ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’پنجاب کے بھر کے تمام ٹیوشن سینٹرز اور اکیڈمیاں اپنے آپ کو اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ کروائیں بصورت دیگر یکم اپریل سے رجسٹریشن نہ کروانے والے سینٹرز کو سیل کر دیا جائے گا۔‘
خیال رہے ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ ٹیوشن سینٹرز کا ایک الگ سے نظام موجود ہے جہاں بچے اضافی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ ٹیوشن سینٹرز گھروں میں بھی ٹیوٹرز فراہم کرتے ہیں۔ 
سیکریٹری سکول ایجوکیشن غلام فرید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹیوشن سینٹرز ایک بڑے کاروبار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ لیکن ان پر کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے نہ ہی ٹیوٹرز کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں والدین کو پتا ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت جتنے بھی ٹیوشن سینٹرز چاہے آن لائن کام کر رہے ہیں یا ان کے دفاتر ہیں یا انہوں نے اکیڈمیاں کھول رکھی ہیں سب کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اتھارٹی سے رجسٹر کروائیں۔‘
سیکریٹری ایجوکیشن کے مطابق ’اس رجسٹریشن میں ان کو اپنے سٹاف کی ساری معلومات اور ان کی تعلیمی قابلیت بھی فراہم کرنا ہو گی۔ رجسٹریشن کے بعد ہی وہ اپنی خدمات فراہم کر سکیں گے۔ بصورت دیگر ان کو یہ کام بند کرنا ہوگا۔‘
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ٹیوشن سینٹرز کی رجسٹریشن کا فیصلہ کچھ رپورٹس کے بعد کیا گیا ہے۔ محکمے کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ان ٹیوشن سینٹرز کے پاس میڑک فیل اساتذہ بھی ہیں اور وہ محض اس کو ایک کاروبار کی غرض سے چلا رہے ہیں۔ اس معاملے پر کافی عرصے سے کام جاری تھا۔‘

ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ ٹیوشن سینٹرز کا ایک الگ سے نظام موجود ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ایک رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں چھ ہزار کے قریب ٹیوشن سینٹرز کام کر رہے ہیں جو کلاس اول سے گریجویشن اور مقابلے کے امتحانات تک کے لیے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ 
اختر علی جو ایک عرصے سے لاہور میں ٹیوشن سینٹر چلا رہے ہیں انہوں نے حکومتی فیصلے کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ بات تو اچھی ہے کہ تعلیمی کوالٹی کو بہتر کرنے کے لیے ٹیوشن سینٹرز میں کوالیفائیڈ سٹاف ہونا چاہیے۔ لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ حکومت کوالٹی بہتر کرنے سے زیادہ ریکارڈ رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔‘
’ہمیں اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس معمولی سے سیکٹر پر بعد ازاں خدمات کی مد میں ٹیکس نہیں لگے گا۔‘
اختر علی نے اپنے ٹیوشن سینٹر کو البتہ محکمہ سکول ایجوکیشن سے رجسٹر کروا لیا ہے ان کے ساتھ میٹرک تک ٹیوشن پڑھانے والے 12 اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹیوشن سسٹم ایک کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہم تو نارمل فیس لے کر سرکاری سلیبس پڑھاتے ہیں او لیول اور اے لیول کی ٹیوشن فیسز بہت زیادہ ہیں لوگ 30 30 ہزار ایک ٹیوشن فیس کی مد میں لیتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کیا کوئی میٹرک فیل یا کم پڑھا لکھا استاد او لیول یا اے لیول کو پڑھا سکتا ہے اسی لیے ہمیں کچھ واضع نہیں ہو رہا کہ حکومت کرنا کیا چاہ رہی ہے۔‘
ٹیوشن سینٹرز کے علاوہ یونیورسٹیوں کے طلبہ اپنے طور پر بھی ٹیوشنز پڑھاتے ہیں انہوں نے اپنے کوئی باضابطہ سینٹرز نہیں بنا رکھے۔ تاہم نئی آنے والے پالیسی میں انفرادی نیوٹرز سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔ 

شیئر: