Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سفارتی زبان میں ’سازش اور مداخلت‘ کی اصطلاحات میں فرق کیا ہے؟

پاکستانی کی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس مراسلے میں سازش کا لفظ نہیں ہے (فوٹو: آئی ایس پی آر)
پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں ملک کی سابق حکمران جماعت کی جانب سے اقتدار سے باہر نکالنے میں امریکی سازش کے حوالے سے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں تھا جس کا مطلب ہے کہ کمیٹی اجلاس کا یہی نتیجہ تھا۔ 
تاہم اردو نیوز کے سوال پر کہ جب سازش نہیں تھی تو امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیوں کیا گیا؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’کیونکہ غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی تھی اور یہ ایک طرح سے غیرملکی مداخلت کے مترادف بھی تھی جس پر سفارتی سطح پر ہی احتجاج کیا جاتا ہے۔‘
اس کے بعد سوشل میڈیا ایک بار پھر دو دھڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک دھڑا جو کہ موجودہ حکومت کا حامی ہے اور اس کے خیال میں مسلح افواج کی جانب سے عمران خان کے سازش کے بیانیے کو رد کر دیا گیا جبکہ عمران خان کے حامی طرح طرح کی ٹویٹس کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیرملکی مداخلت کو تسلیم کیا۔ یہی عمران خان کہہ رہے ہیں کہ غیرملکی مداخلت کے ذریعے ان کی حکومت ختم کی گئی۔ 
اپنی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس معاملے کو سفارتی مسئلہ قرار دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ سفارتی زبان میں بیرونی مداخلت اور سازش میں کیا فرق ہے؟
سفارتی امور کے ماہرین کے خیال میں یہ دو الگ الگ نوعیت کے کام ہیں اور ان کے معنی اور مفہوم بھی مختلف ہیں اور سفارتی لحاظ سے ان کے اثرات بھی یکساں نہیں ہوتے۔ 
اگرچہ یہ دونوں کام ہی اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں لیکن مداخلت ایک معمول کا کام ہے جبکہ سازش ایک قابل سزا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ 

’سفارتی سطح پر مداخلت ہمہ وقت ہوتی رہتی ہے‘

انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اور سینئر سفارت کار عبدالباسط نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’سفارتی سطح پر مداخلت ہمہ وقت ہوتی رہتی ہے۔ ہر ملک کسی نہ کسی مسئلے پر کسی دوسرے ملک پر مداخلت کا الزام عائد کرتا رہتا ہے۔ افغانستان کی سابق حکومت پاکستان پر اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرتی ہے۔ عموماً ہر ملک کا دفتر خارجہ آئے روز کسی دوسرے ملک کے بارے میں یہ بیان جاری کرتا ہے کہ فلاں ملک ہمارے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔‘

سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ سفارتی سطح پر سازش کسی خاص مقصد کے لیے ہوتی ہے اور اس کے مقاصد بھی مذموم ہوتے ہیں (فوٹو: اے این آئی )

انھوں نے کہا کہ ’بعض اوقات مداخلت بیان بازی کی حد تک ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں جیسا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ واقعات کے تناظر میں ہوا۔ سفارتی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات، حکومتوں کے باہمی رویوں اور داخلی پالیسی کی بنیاد پر سفارت کاروں کو اپنے خدشات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ایسا تبصرہ بھی کیا جاتا ہے جو مداخلت کے زمرے میں آتا ہے اور عموماً اس کا سفارتی سطح پر ہی جواب دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اسے سازش بنا کر عوام میں لے جایا جائے کیونکہ کسی ایک مسئلے پر اختلاف ہو سکتا ہے جبکہ سفارتی دنیا میں آپ نے مجموعی ملکی مفاد اور باہمی تعلقات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔‘
عبدالباسط نے کہا کہ ’سفارتی سطح پر سازش کسی خاص مقصد کے لیے ہوتی ہے اور اس کے مقاصد بھی مذموم ہوتے ہیں۔ جو سازش کرتے ہیں وہ بلا کر ساری بات نہیں بتاتے بلکہ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سازش تھی اور بعض اوقات تو معلوم بھی نہیں ہوتا۔‘
سفارت کاری کے ماہرین کے مطابق مداخلت کے کئی طریقے ہیں۔ کوئی بھی ملک جب ظاہری طور پر کسی خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نیت سے زبانی مداخلت، مسلح مداخلت، سیاسی، معاشی یا ثقافتی دباؤ ڈال کر مجبور کرتا ہے تو اسے غیرملکی مداخلت کہا جاتا ہے جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے لیکن دنیا کے تمام ممالک اپنے اپنے طور پر خودمختار ملکوں کے اندرونی معاملات اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ 

’سازش ایک قابل سزا جرم ہے‘

اس حوالے سے برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر نفیس زکریا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’غیرملکی سازش اور مداخلت میں فرق یہ ہے کہ سفارتی دنیا میں مداخلت کو بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے جبکہ سازش ایک قابل سزا جرم ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’80 کی دہائی میں عالمی عدالت انصاف میں نکاراگوا کی جانب سے امریکہ کے خلاف ایک کیس دائر کیا گیا تھا جس میں نکاراگوا کی حکومت نے امریکہ پر غیرملکی مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔ امریکہ نے اگرچہ عالمی عدالت انصاف کے اختیار سماعت کو تسلیم کیا تھا اور نکاراگوا کی حکومت کی جانب سے فراہم کیے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر امریکہ کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔‘

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان 27 مارچ کو جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ انہیں ایک طاقتور ملک کی جانب سے دھمکیاں دی گئی ہیں (فوٹو: اے پی پی)

نفیس زکریا کے مطابق ’عالمی عدالت انصاف نے قرار دیا تھا کہ کوئی بھی ملک کسی بھی قانون کے تحت کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات بالخصوص سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔‘ 
تاہم نفیس زکریا کہتے ہیں کہ ’سازش مداخلت سے کہیں بڑا جرم ہے۔ مداخلت اور سازش کا آپس میں موازنہ اس لیے بھی نہیں کیا جا سکتا کہ مداخلت سفارتی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کے زمرے نہیں آتی ہے جبکہ سازش کو سفارتی دنیا میں قابل سزا جرم ہے۔‘ 
سفارتی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ ’مداخلت پر دونوں ملک ایک دوسرے سے سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے یا چھوٹے موٹے احتجاجی مراسلے کے ذریعے ہی نمٹ لیتے ہیں لیکن سازش بعض اوقات سفارتی تعلقات کو محدود یا ختم کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔‘

سابق ہائی کمشنر نفیس زکریا نے کہا کہ مداخلت سفارتی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کے زمرے نہیں آتی (فائل فوٹو: اے پی پی)

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی ملک کی جانب سے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے تو اسے ڈی مارش کیا جاتا ہے یعنی تحریری طور پر احتجاج ریکارڈ کرا دیا جاتا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات پر بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اسے رسمی کارروائی کے طور لیا جاتا ہے۔ جبکہ سازش کرنے والے ملک کے سفیر کو واپس بھیجا جاتا ہے اور عالمی عدالت انصاف یا کسی بھی بڑے سفارتی فورم جیسے اقوام متحدہ وغیرہ وہاں پر اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے ثبوت عالمی اداروں کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیں تاکہ سفارتی سطح پر غیرملکی سازش کو نہ صرف بے نقاب کیا جا سکے بلکہ دیگر ممالک کو بھی خبردار کیا جائے کہ وہ بھی متعلقہ ملک سے خبردار رہیں۔

شیئر: