Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈان لیکس پر نکالے گئے طارق فاطمی کی ایک بار پھر کابینہ میں واپسی

طارق فاطمی کو ڈان لیکس کی تحقیقات کی روشنی میں عہدے سے ہٹایا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے سابق سفیر سید طارق فاطمی کو معاون خصوصی برائے خارجہ امور تعینات مقرر کردیا ہے۔ وہ اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی بھی رہ چکے ہیں۔  
انہیں ڈان لیکس کی تحقیقات کے نتیجے میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔  
طارق فاطمی 35 سال سے زائد عرصے تک کیریئر ڈپلومیٹ رہے۔ اس دوران انہوں نے دو مرتبہ ماسکو، نیو یارک، دو مرتبہ واشنگٹن اور بیجنگ سمیت بیرون ملک پاکستانی مشنز میں مختلف سفارتی ذمہ داریاں انجام دیں۔ 
اس سے قبل وہ ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ (امریکہ اور یورپ ڈویژن) تھے اور بعد میں وزیراعظم کے دفتر میں خارجہ امور، دفاع اور دفاعی پیداوار کے انچارج رہے۔ سنہ 1999 میں انہیں ملک کی سول سروس میں وفاقی سیکریٹری کے اعلٰی ترین عہدے پر ترقی دی گئی۔ 
طارق فاطمی 1982 سے 1986 تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں پاکستانی مندوب کے طور پر شریک ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے متعدد مرتبہ غیر وابستہ ممالک کی تنظیم اور او آئی سی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی ہے جبکہ افغانستان پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنیوا مذاکرات کے رکن بھی رہے۔ 
وہ زمبابوے میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں جبکہ انگولا، بوٹسوانا، نمیبیا اور زیمبیا ان کی اضافی ذمہ داری میں شامل ممالک تھے۔ بعد ازاں انہوں نے امریکہ، اردن، بیلجیئم، لکسمبرگ اور آخرکار یورپی یونین (برسلز) میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں جہاں سے وہ 2004 میں ریٹائر ہوئے۔ 
ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فارن سروس اکیڈمی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، ایڈمنسٹریٹیو سٹاف کالج اور دیگر اداروں میں پڑھایا۔
 وہ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی کتاب ’پاکستان کا مستقبل‘ کے شریک مصنف بھی ہیں۔ وہ روسی اور بنگالی زبان روانی سے بول سکتے ہیں۔ 

طارق فاطمی سابق وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی بھی رہ چکے ہیں (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

جون 2013 میں طارق فاطمی کو وزیر مملکت  کے عہدے ساتھ وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے امور خارجہ مقرر کیا گیا۔ وہ اس عہدے پر اپریل 2017 تک کام کرتے رہے۔ 
انھیں ڈان لیکس کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات کی روشنی میں عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔  
ڈان لیکس کیا تھی؟ 
انگریزی اخبار ڈان میں صحافی سرل المیڈا کی جانب سے چھ اکتوبر 2016 کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس سے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے معاملے پر عسکری اور سیاسی قیادت میں اختلافات سامنے آئے جس پر سیاسی اور عسکری قیادت نے سخت ردعمل دیتے ہوئے قومی سلامتی کے منافی قرار دیا۔ 
بعد ازاں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ اصرار سامنے آیا کہ یہ خبر حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر فیڈ کی گئی تھی۔ اس میں پرویز رشید، طارق فاطمی، اس وقت کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین یہاں تک کہ مریم نواز کا نام بھی لیا جاتا رہا۔  

ڈان لیکس میں پرویز رشید کے علاوہ مریم نواز کا نام بھی لیا جاتا رہا (فائل فوٹو: مریم نواز فیس بک) 

اس خبر کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی گئی۔ خبر روکنے میں ناکامی پر اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس خبر کی اشاعت اور اس سے جُڑے واقعات کو ڈان لیکس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔  
ریٹائرڈ جج عامر رضا خان کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے پانچ ماہ کی طویل محنت کے بعد قومی سلامتی سے متعلق خبر کی اشاعت کے ذمہ داروں کا تعین کر کے اپنی سفارشات 26 اپریل کو وزارت داخلہ کو بھجوا دیں۔ بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران رپورٹ پیش کی۔ 
وزیراعظم نے کمیٹی رپورٹ کے 18 ویں پیرے کی منظوری دیتے ہوئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اپنے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو اکتوبر میں ہی فارغ کردیا گیا تھا اور ان کی جگہ مریم اورنگزیب کو وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات کا قلم دان سونپا گیا تھا۔ 
اس سلسلے میں جاری ہونے والے اعلامیے کو مسلح افواج کے اس وقت کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں ڈان لیکس سفارشات پر وزیراعظم کے اعلامیے کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔  

طارق فاطمی نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا تھا (فائل فوٹو: دفتر خارجہ)

آصف غفور نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ وزیراعظم کا عمل در آمد سے متعلق اعلامیہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور نہ ہی اس رپورٹ کی سفارشات پر من و عن عمل درآمد کیا گیا ہے اس لیے پاک فوج اس اعلامیے کو مسترد کرتی ہے۔ 
ڈان لیکس کے معاملے پر دس مئی 2017 کا دن انتہائی اہمیت کا حامل رہا جب وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے ایک نیا اعلامیہ جاری کیا گیا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ لیا۔
یوں جہاں آج سیاسی قیادت نے نیا اعلامیہ جاری کر کے نامکمل ںوٹی فکییشن کو ازسرنو ترتیب دیا وہیں عسکری قیادت نے بھی نئے اعلامیے کو خوش آمدید کہتے ہوئے حکومتی کاوشوں کو سراہا اور سابق ٹویٹ واپس لے لی۔ 
وزارت داخلہ کی جانب سے ڈان لیکس پر نئے اعلامیے کے جاری ہونے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے جی ایچ کیو میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نامکمل چیز مکمل ہو گئی ہے اور سیاسی قیادت نے اس حوالے سے بہترین کاوشوں کا مظاہرہ کیا اور تمام غلط فہمیاں دور کیں۔ 
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پہلے جو نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا تھا وہ نامکمل تھا جو آج نئے اعلامیے کے بعد مکمل ہوگیا ہے اس لیے ٹویٹ واپس لے لیا گیا ہے۔ 

طارق فاطمی نے ماسکو، واشنگٹن اور بیجنگ سمیت بیرون ملک پاکستانی مشنز میں سفارتی ذمہ داریاں انجام دیں (فائل فوٹو: دفتر خارجہ)

ڈان لیکس کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ملک میں فائنل اتھارٹی صرف وزیراعظم ہیں اور وہ جو حکم دیں گے اس پر عمل کیا جائے گا۔  
طارق فاطمی نے الزامات مسترد کیے  
وزیراعظم نواز شریف کے سابق معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے الوداعی خط میں اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔  
ہیڈکوارٹرز کے تمام افسران کے نام لکھے گئے خط میں طارق فاطمی کا کہنا تھا کہ ’میں خود پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کرتا ہوں، یہ الزامات ایک ایسے شخص کے لیے تکلیف کا باعث ہیں جو پانچ دہائیوں سے پاکستان کی خدمت کررہا ہو۔‘ 
طارق فاطمی کا مزید کہنا تھا کہ ’ان برسوں میں مجھے قومی سلامتی کے معاملات سے جُڑے کئی حساس معاملات کو دیکھنا پڑا جن میں کچھ بہت اہم معلومات سے آگاہی بھی شامل تھی۔‘

شیئر: