Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی کابینہ اتحادی حکومت کا نظام چلا پائے گی؟

پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف کی نئی وفاقی کابینہ نئے اور پرانے چہروں کا امتزاج ہے جس میں حکمران جماعت کی چھ جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں۔
منگل کو ایوان صدر میں حلف لینے والی کابینہ میں نصف درجن اتحادی جماعتوں کی شمولیت کے باعث اس کابینہ کا تمام معاملات پر ہم آواز ہو کر ایک ساتھ کام کرنا ایک چیلنج ہوگا۔
نئی کابینہ میں چند ایسے وزرا بھی شامل ہیں جو ماضی میں کئی بار کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں اور اپنے شعبے میں تجربہ رکھتے ہیں۔ ان میں خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، سید خورشید احمد شاہ، سید نوید قمر اور ریاض حسین پیرزادہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس میں تین وزرا تو ایسے ہیں جو دو ہفتے قبل ختم ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی کابینہ کا حصہ تھے۔ ان میں طارق بشیر چیمہ، امین الحق اور شاہ زین بگٹی شامل ہیں۔
نئی کابینہ میں شاہد خاقان عباسی جیسے تجربہ کار سیاست دان موجود نہیں تاہم توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری چند دن بعد بطور وزیر خارجہ کابینہ میں شامل ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔
کابینہ میں شامل نئے چہروں میں شازیہ مری، مرتضیٰ محمود، عبدالقادر پٹیل، احسان الرحمان مزاری، اعظم نذیر تارڑ اور میاں جاوید لطیف کے علاوہ عابد حسین بھائیو، مولانا اسعد محمود، مولانا عبدالواسع اور مفتی عبدالشکور شامل ہیں۔

نئی کابینہ کے پاس وقت کم کام زیادہ

اگر حکومت جلد انتخابات کی طرف نہیں جاتی تو نئی وفاقی کابینہ کے پاس تقریباً ایک سال سے کچھ زیادہ وقت ہے جس میں انہیں اپنی کارکردگی دکھا کر الیکشن میں جانا ہے۔

توقع ہے کہ بلاول بھٹو وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالیں گے۔ فوٹو: اے پی پی

سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق نئی وفاقی کابینہ میں زیادہ تر تجربہ کار لوگ شامل ہیں جو کہ کافی اچھی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس کابینہ میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت موجود ہے کیونکہ اس میں بعض پرانے سیاست دان ہیں جنہیں پہلے بھی وزارتوں کا تجربہ حاصل ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا زیادہ پارٹیوں کی وجہ سے کوئی اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں، سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’مسائل تو ہوں گے مگر انہیں حل کر لیا جائے گا کیونکہ وقت تھوڑا ہے اور زیادہ چانس ہے کہ وہ چلا لیں گے۔‘

نیب کیسز کا سامنے کرنے والے کابینہ ارکان

پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزرا موجودہ کابینہ پر نیب یا ایف آئی اے کیسز کی بنا پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ کابینہ میں چھ ایسے ارکان ہیں جن پر ماضی میں نیب یا دیگر قانون نافذ کرنے والے محکموں میں مقدمات قائم رہے ہیں۔ ان میں خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، مفتاح اسماعیل، سید خورشید احمد شاہ، سید نوید قمر اور رانا ثنا اللہ شامل ہیں۔
تاہم ان کا دعویٰ کا ہے کہ زیادہ تر کیسز سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کسی کے خلاف بھی ٹھوس شواہد نہیں پیش کیے جا سکے اور سزا نہیں ملی ہے۔ رانا ثنا اللہ پر منشیات کیس پر سابق حکومت کو خاصی خفت اٹھانا پڑی تھی اور ان کے خلاف شواہد اب تک پیش نہیں کیے جا سکے ہیں۔
 اسی طرح مسلم لیگ کے سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے خلاف کیس میں ضمانت منظور کرتے وقت سپریم کورٹ نے نیب پر کمزور کیس بنانے پر کڑی تنقید کی تھی۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے خواجہ سعد رفیق اور انکے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کے حوالے سے جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے، اس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا۔

کابینہ میں شامل چھ ارکان پر نیب کے مقدمات رہ چکے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

سعد رفیق اور ان کے بھائی کو دسمبر 2018 میں نیب نے پیراگون ہاؤسنگ سکینڈل میں اپنی تحویل میں لیا تھا جس کے بعد  17 مارچ  2020 کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی تھی۔
ضمانت دیتے وقت بھی جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’یا تو نیب خراب ہے یا اہلیت کا فقدان ہے، دونوں ہی صورتحال میں معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ نیب کے پاس ضمانت خارج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں۔‘
چند ماہ بعد تفصیلی فیصلے میں بھی عدالت نے لکھا تھا کہ نیب کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں تھے جو درخواست گزار بھائیوں کو کمپنی سے جوڑتے ہوں اور جس کی بنا پر کمپنی کے کسی بھی غلط اقدام کی وجہ سے ان کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی وجہ بنے ہوں۔
عدالت نے کہا ہے کہ نیب اس حوالے سے رقم کی لین دین میں کسی قسم کی قانون کی خلاف ورزی کو ثابت نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی یہ کہ درخواست گزاروں نے ان ذرائع سے بدیانتی اور غیرقانونی طریقے سے اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ دخواست گزاروں کے خلاف تحقیقات، ان کی گرفتاری اور 15 ماہ کے طویل عرصے تک ان کی حراست، بادی النظر میں احتساب آرڈیننس سے ہم آہنگ یا مطابقت نہیں رکھتا۔  

شیئر: