Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنگاپور میں 44 گرام منشیات کی سمگلنگ، ملائیشیا کے شہری کو 10 سال بعد پھانسی

سزائے موت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سنگاپور کے ایک پارک میں 300 افراد نے موم بتیاں جلائیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
سنگاپور میں 44 گرام ہیروئن کی سمگلنگ کے مقدمے میں گرفتار ملائیشیا کے شہری کو 10 برس بعد سزائے موت دے دی گئی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سنگاپور دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں منشیات کی سمگلنگ پر انتہائی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
سزائے موت پانے والے 34 سالہ ناگنتھرن کےدھرمالنگم  کے خاندان کے افراد نے سنگاپور کی حکومت سے سزا معاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں۔
ان کے وکیل نے حکام کو متعدد بار معافی کی اپیلیں کرتے ہوئے توجہ دلائی تھی کہ سزائے موت اس بنیاد پر روکی جائے کہ ناگنتھرن کےدھرمالنگم ذہنی طور پر معذور تھے۔
ناگنتھرن کےدھرمالنگم  کے 22 سالہ بھائی نوین کمار نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا کہ ’سزائے موت دیے جانے کے بعد لاش واپس ملائیشیا بھجوائی جا رہی ہے جہاں ان کے آبائی علاقے میں آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔‘
منگل کو سنگاپور کی ایک عدالت نے ناگنتھرن کےدھرمالنگم کی والدہ کی قانونی اپیل مسترد کردی تھی جس کے بعد پھانسی کے ذریعے سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا۔
عدالت میں سماعت کے موقع پر نگائنھتران دھرمالنگم کے شیشے کے دوسری طرف بٹھا کر گھر والوں سے ملاقات کرائی گئی جہاں ان کے خاندان کے افراد روتے رہے اور مجرم کی ’ماں‘ پکارنے کی صدا کمرہ عدالت میں گونج اٹھی۔
نگائنھتران دھرمالنگم کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سنگاپور کے ایک پارک میں 300 افراد نے موم بتیاں جلائیں۔
اس مقدمے کو اس وقت عالمی توجہ حاصل ہوئی جب اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ اور برطانوی ارب پتی رچرڈ برانسن نے ملائیشیا کے وزیراعظم اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے مل کر سنگاپور سے سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

شیئر: