Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منتخب ہونے سے حلف اٹھانے تک: 27 دنوں میں کیا کیا ہوا؟

وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کے موقع پر پنجاب اسمبلی میں بدترین ہنگامہ آرائی دیکھی گئی (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کو بالآخر نیا حکمران مل گیا ہے اور اب حمزہ شہباز نے صوبے کے نئے وزیراعلٰی کا حلف اٹھا لیا ہے۔
تاہم اس مقام تک پہنچے کے لیے انہیں جس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ مسلسل 27 روز کی کشمکش کے  بعد اقتدار کی کرسی پر بیٹھ سکے ہیں۔  
حمزہ شہباز کی پریشانیوں کا آغاز ان کی بطور وزیراعلٰی نامزدگی کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے جب اُنہیں ان کے سیاسی مخالفین سے موروثی سیاست کے طعنے ملنا شروع ہوئے کیونکہ ان کے والد شہباز شریف کو مسلم لیگ ن نے وزرات عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر رکھا تھا۔  

انتخابی عمل میں تاخیر

پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی صوبے میں نئے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے گورنر اسمبلی کا اجلاس طلب کرتا ہے، اور سپیکر اسمبلی میں اس انتخاب کا انعقاد کر کے جیتنے والے امیدوار سے حلف لینے کی سمری گورنر کو بھیج دیتا ہے جو نومنتخب وزیراعلٰی سے حلف لیتا ہے۔  
تاہم اتنا سادہ نظر آنے والا یہ آئینی عمل اس وقت لٹک گیا جب 3 اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس عین اس وقت ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے ملتوی کردیا جب ووٹنگ کا عمل شروع ہونے والا تھا۔
حمزہ شہباز کے مخالف امیدوار خود سپیکر اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی تھے اور اسمبلی کا نظم و نسق چلانے کی وجہ سے انہیں ایک لحاظ سے تکینکی برتری حاصل تھی کیونکہ اسمبلی میں پتا بھی سپیکر کی مرضی سے ہلتا ہے۔  
تاہم اس تکینکی برتری کے ساتھ ساتھ انہیں 186 ووٹ بھی لینا تھے جو بظاہر ان کے لیے مشکل تھا کیونکہ تحریک انصاف کے دو گروپ علیم خان اور جہانگیر ترین نے حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کردیا تھا۔  
پنجاب اسمبلی کا وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے اجلاس پہلے 6 اپریل تک ملتوی کیا گیا پھر یہ تاریخ 16 اپریل کردی گئی۔ اسی دوران ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری بھی ’چوہدری کیمپ‘ سے نکل آئے، تاہم وہ انتخابات کی تاریخ دوبارہ تبدیل نہیں کر پائے۔  

سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے ڈپٹی سپیکر کے اختیارات واپس لے لیے تھے (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

ڈپٹی سپیکر نے اور مسلم لیگ ن نے بہت کوشش کی کہ 6 اپریل کو انتخاب ہو جائے لیکن وہ نہ ہوا بلکہ ڈپٹی سپیکر سمیت کسی رکن کو اسمبلی کی عمارت میں بھی داخل نہ ہونے دیا گیا۔  
چھ اپریل کو مسلم لیگ ن نے اپنی نوعیت کے ایک انوکھے واقعے میں ایک نجی ہوٹل میں علامتی اجلاس کے دوران حمزہ شہباز کو 199 ووٹوں سے وزیراعلٰی منتخب کرلیا۔  
الیکشن نہ ہونا تھا نہ ہوا تھک ہار کے 8 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ میں فوری انتخاب کروانے کی درخواست دائر کردی گئی۔ کئی روز تک چلنے والی اس سماعت میں آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ الیکشن 16 اپریل کو ہی ہوگا۔  
چوہدری پرویز الٰہی اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل میں چلے گئے۔ اس دوران صورت حال اور مشکل ہوگئی۔
سپیکر پرویز الٰہی نے اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے اختیارات سلب کر لیے اور ان کی اپنی پارٹی تحریک انصاف نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کردی۔ عین اسی وقت ن لیگ نے بھی پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد جمع کرا دی۔  

لاہور ہائی کورٹ نے سپیکر قومی اسمبلی کو حمزہ شہباز سے حلف لینے کی ہدایت کی (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

16 اپریل کو ہونے والا الیکشن کھٹائی پڑ گیا تو ہائی کورٹ نے اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کے اختیارات بحال کر کے انہیں انتخاب کروانے کے لیے پریذائیڈنگ افسر مقرر کردیا۔  
بدترین ہنگامہ آرائی اور ویزیٹرز گیلری سے اجلاس:  
16 اپریل کو انتخاب کا دن بھی آپہنچا لیکن اسمبلی کے اجلاس میں وہ کچھ ہوا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ڈپٹی سپیکر کے حال میں داخل ہوتے ہی ان کی اپنی پارٹی کے اراکین نے ان پر حملہ کردیا اور ان کے لیے خود کو بچانا مشکل ہوگیا۔  
تین گھنٹے بعد سینکڑوں پولیس اہلکار پنجاب اسمبلی کے حال کے اندر انتخابی عمل میں حائل رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے داخل کیے گئے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
اس دوران تشدد کے واقعات بھی ہوئے، سپیکر پرویز الٰہی سمیت کئی اراکین زخمی ہوگئے جبکہ کئی پولیس اہلکاروں کو بھی زدو کوب کیا گیا۔  

چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ ’حمزہ شہباز کا انتخاب غیر آئینی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈپٹی سپیکر نے سینکڑوں پولیس والوں کے جُھرمٹ میں اپنی نشست کے بجائے ویزیٹرز گیلری سے انتخاب کا عمل مکمل کروایا۔ اس طرح کے انتخابی عمل کی مثال اس سے پہلے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں موجود نہیں۔  
ڈپٹی سپیکر نے حمزہ شہباز کی جیت کا اعلان تو کردیا لیکن آگے ایک آگ کا دریا اور حمزہ شہباز کا انتظار کر رہا تھا۔ جب تحریک انصاف کے تعینات کیے گئے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف نہ لینے کا اعلان کردیا۔  
حلف کے لیے آنکھ مچولی:  
گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کیا۔ حمزہ شہباز نے بادل نخواستہ ایک دفعہ پھر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔  
عدالت نے چند روز کی سماعت کے بعد صدر مملکت کو مشورہ دیا کہ وہ حلف کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کردیں جو نہ ہوا۔ پھر دوبارہ ہائی کورٹ میں درخواست دے دی گئی۔ اب کی بار عدالت نے گورنر پنجاب کو 24 گھنٹوں کے اندر خود یا اپنے نمائندے کے ذریعے حلف لینے کا مشورہ دیا۔  

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

خیال رہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت صدر مملکت اور گورنرز کو عدالتی استثنیٰ حاصل ہے۔ کوئی عدالت انہیں حکم جاری نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹ نے مشورہ نما حکم نامے جاری کیے۔  
گورنر پنجاب نے پھر بھی حلف نہ لیا تو تیسری مرتبہ پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور ہائی کورٹ سے اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کی استدعا کی گئی۔ پھر عدالت نے سپیکر قومی اسمبلی کو حلف لینے کی ہدایت جاری کی۔  
اس سارے عمل میں پانچ مرتبہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا جو کہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلٰی منتخب ہونے کے باوجود دو ہفتوں تک حلف نہ لینے کی وجہ سے کام نہ شروع کرسکے۔ یہ منفرد اعزاز بھی حمزہ شہباز کے پاس ہی ہے۔  

شیئر: