Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر میں مچھیروں نے سیاسی برج کیسے الٹ دیے؟

حق دو تحریک کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے والے بیشتر امیدوار محمد مصری کی طرح غیر معروف اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)
گوادر سے تقریباً 24 کلو میٹر دور سربندن ساحل سمندر کے قریب مچھیروں کی چھوٹی سی بستی ہے۔
پولیو کے باعث ایک پاؤں سے معذور محمد مصری یہاں پرچون کی چھوٹی سی دکان کے مالک ہیں۔ محمد مصری نے زندگی میں پہلی بار اتوارکو بلوچستان میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور ضلع کی سب سے مضبوط شمار ہونے والی چار جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کہدہ پرویز عصا کو شکست دی جس  کے والد اور بھائی اس سے پہلے ڈسٹرکٹ کونسل چیئرمین رہ چکے ہیں ۔
محمد مصری کا تعلق گوادرمیں ابھرنے والی ’گوادر کوحق دوتحریک‘ سے ہے۔ صرف ڈیڑھ سال قبل وجود میں آنے والی اس تحریک نے بلدیاتی انتخابات میں چار جماعتی اتحاد کے مضبوط امیدوار کو شکست دے کر ایسے کئی اپ سیٹ  کئے اور گوادر میں میونسپل کمیٹیوں اور یونین کونسل کی کل 148 نشستوں میں سے 64 پر کامیابی حاصل کرکے ضلع کی  سب سے بڑی قوت بن کر دکھایا ہے۔
محمد مصری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے مد مقابل امیدوار کو بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی حمایت حاصل تھی۔  
’ان کے پاس سرمایہ بھی تھا اور الیکشن لڑنے کا تجربہ بھی لیکن ہمارے پاس انتخابی مہم ، پوسٹرز اور بینرز چھپانے کے لیے پیسے تک نہیں تھے۔ لیکن لوگوں نے 40 سالوں سے آزمائے ہوئے لوگوں کے بجائے ہمیں موقع دیا کیونکہ حق دو تحریک نے انہیں نئی امید دلائی ہے۔‘
حق دو تحریک کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے والے بیشتر امیدوار محمد مصری کی طرح غیر معروف اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق ’ہمارے بہت سے کامیاب امیدوار ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں نہ صرف پہلی بار انتخاب لڑا بلکہ کئی ایک نے تو اس سے پہلے کبھی ووٹ بھی  نہیں ڈالا تھا۔‘

مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق ہمارے بہت سے کامیاب امیدوار ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں نہ صرف پہلی بار انتخاب لڑا بلکہ ووٹ ڈالا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ ہمارے امیدوار وں میں کوئی جوس بیچنے والا ہے، کوئی پی سی او چلاتا ہے، کوئی ماہی گیری تو کوئی مزدوری کرتا ہے۔
’مگر انہوں نے بڑے بڑے برج الٹ دیئے۔ کئی دہائیوں سے ایم این اے اور ایم پی اے  رہنے والے خاندان اورسرمایہ کاروں اور کارخانوں کے مالکان کو شکست دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے امیدوار نہ تجربہ کار تھے، انہوں نے غلطیاں بھی کیں، انہیں انتخابی داؤ پیج کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا لیکن عوام ہمارے ساتھ تھے اس لیے ہمیں کامیابی ملی۔
’حق دو تحریک کی حیران کن انتخابی کارکردگی  نہ صرف بلوچستان بھر میں بلکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پرپاکستان کے دیگر حصوں کے سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضلع میں دہائیوں سے سرگرم جماعتوں کی جانب سے چھوڑا گیا سیاسی خلا اس نئی تحریک نے پُر کیا ہے۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ناصر سہرابی سمجھتے ہیں کہ ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کی کامیابی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ عوامی اور حقیقی مسائل پر کھل کر بات کرنا ہے۔

گوادر کے صحافی نور محسن کا کہنا ہے کہ  حق دو تحریک کی کامیابی میں سب سے اہم کردار خواتین کا ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

ان کا کہنا ہے کہ گوادر میں سی پیک اور چینی ماہرین کی آمد کے بعد امن وامان کے خدشات کی وجہ سے سکیورٹی کے سخت اقدامات سے مقامی لوگوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے، انہیں جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر تنگ کیا جارہا تھا، ماہی گیروں کے لیے سمندر جانا مشکل بنا دیا گیا، بارڈرٹریڈ پر رکاوٹوں اور ٹرالرنگ کی وجہ سے مقامی لوگوں اور چھوٹے ماہی گیر وں کا روزگار متاثر ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مسائل کو نظر انداز کیا گیا تو لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا گیا ایسے میں ڈیڑھ دو سال پہلے مولانا ہدایت الرحمان نے آواز اٹھائی تو لوگوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔اس طرح گوادر کو حق دو تحریک  کا آغاز ہوا۔
مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور وہ اس جماعت کے صوبائی جنرل سیکریٹری بھی ہیں مگر وہ جماعت اسلامی کے بجائے حق دو تحریک  کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔
ناصر سہرابی کے بقول حق دو تحریک نے گوادر کے لوگوں کے حقیقی مسائل پر نہ صرف مؤثر طریقے سے آواز اٹھائی بلکہ ایک ماہ سے طویل عرصہ تک دھرنا بھی دیااور شہر کی تاریخ میں خواتین کا سب سے بڑا جلسہ کیا۔
’لوگ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے مؤثر احتجاج کے نتیجے میں ہی ان کے مسائل کسی حد تک حل ہوئے، انہیں ریلیف ملا اس لیے انہوں نے روایات سے ہٹ کر حق دو تحریک سے وابستہ نئے لوگوں کا انتخاب کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس تحریک نے سٹیٹس کو کو بھی چیلنج کیا ،لوگ گوادر میں قوم پرست جماعتوں کے چہرے کے طور پر پہچاننے والی شخصیات کو بھی سٹیٹس کو کا حصہ اور دہائیوں سے حل نہ ہونے والے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اس  لیے انہوں نے سٹیٹس کو مسترد کیا۔
گوادر کے صحافی نور محسن کا کہنا ہے کہ  حق دو تحریک کی کامیابی میں سب سے اہم کردار خواتین کا ہے۔ ’ضلع میں انتخابات کے دوران خواتین کے جلسے تو نہیں ہوئے مگر ماسی زینی جیسی تحریک سے وابستہ متحرک خواتین نے گھر گھر جاکر مہم چلائی، امیدواروں کے لیے خصوصی نغمے بنائے  اور خواتین  کو ووٹ ڈالنے کے لئے باہر نکلنے پر قائل کیا۔‘
تجزیہ کار ناصر سہرابی کے مطابق ماسی زینب گوادر پورٹ کے قریب ماہی گیروں کی بستی میں رہتی ہے جہاں کے لوگ ٹرالرنگ اور سکیورٹی کے نام پر سختیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اس لیے اس نے احتجاج اور اب بلدیاتی انتخابات میں مؤثر کردار ادا کیا۔

ناصر سہرابی کا کہنا ہے کہ پہلے یہ تحریک اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی اب ان کی آزمائش شروع ہوگی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کی عوامی پذیرائی کا باقی سیاسی جماعتوں کو بھی پہلے سے اندازہ تھا اس لئے ماضی میں سخت سیاسی حریف ہونے کے باوجود انہوں نے ان انتخابات میں حق دو کے خلاف چار جماعتی اتحاد بنایا۔
’اگر یہ جماعتیں اتحاد نہ بناتیں تو شاید ان کی پوزیشن اس سے بھی خراب ہوتی۔‘
ناصر سہرابی کا کہنا ہے کہ پہلے یہ تحریک اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی اب ان کی آزمائش شروع ہوگی۔
’لوگوں نے انہیں جتنا بھاری مینڈیٹ دیا ہے اتنی ہی زیادہ ان سے توقعات بھی وابستہ کی ہیں ۔اب ان پر کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہوگا اوراداروں کو چلانے کا تجربہ نہ ہونا ،بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات اور فنڈز کی کمی جیسی بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔‘
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ صوبے کا بلدیاتی نظام کھوکھلا ، انتظامی اور مالی طور پر کمزور  ہے  اور اوپر (صوبائی ) حکومت بھی مخالف ہے  اس لیے  ڈیلیور کرنا آسان نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بلدیاتی اداروں کے مالی اور انتظامی اختیارات کی جنگ لڑیں گے اور ضرورت پڑی تو پھر دھرنا دیں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نومنتخب لوگ نا تجربہ کار ضرور مگر نالائق نہیں، تعلیم یافتہ اور عوام کی خدمت کے لئے پرعزم ہیں۔
’میں خود میئر کا امیدوار نہیں بلکہ ایک تعلیم یافتہ امیدوار کو گوادر کا میئر منتخب کرائیں گے اور پسنی میں  بھی آزاد امیدوار وں کی حمایت سے اپنا میئر لانے کی کوشش کریں گے۔‘

باقی بلوچستان میں انتخابی نتائج میں کون آگے؟

گوادر کے برعکس باقی بلوچستان میں حسب روایت بلدیاتی انتخابات میں لوگوں کی اکثریت نے ووٹ کی صورت میں اپنی رائے کا ملا جلا اظہار کیا ہے۔ بعض علاقوں میں شخصیات، قبائل، برادری تو بعض علاقوں میں سیاسی جماعتوں  کی بنیاد پر امیدواروں کو کامیاب کرایا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق کوئٹہ اور لسبیلہ میں انتخابی حلقہ بندیاں نہ ہونے کی وجہ سے انتخاب نہ ہوسکے۔ صوبے کے باقی تمام 32 اضلاع میں 6 ہزار 259 وارڈز پر انتخاب ہوا جن میں سے 1584 وارڈز پر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ باقی 4456 وارڈز میں 16 ہزار سے زائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق شہری علاقوں کو سات میونسپل کارپوریشنز، 49 میونسپل کمیٹیوں اور 914 وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ دیہی علاقوں کو 32 ڈسٹرکٹ کونسل، 838 یونین کونسل اور 5345 دیہی وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق 6 ہزار 259 بلدیاتی حلقوں میں سب سے زیادہ برتری آزاد امیدواروں کو ملی ہےجن کی تعداد 1500 سے زائد ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کی کارکردگی عام انتخابات کی نسبت اچھی نہیں رہی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سیاسی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے جس نے تین سو سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اورقلعہ عبداللہ، خانوزئی، سرانان، موسیٰ خیل، شیرانی، ژوب، مستونگ اورواشک میں واضح اکثریت حاصل کی ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی  ہے جس نے  لورالائی، صحت پور، ڈیرہ اللہ یار ، اوستہ محمد، بارکھان  میں برتری حاصل کی ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے شمالی اور پشتون اکثریتی شہری علاقوں قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، ہرنائی، شاہرگ، دکی اور چمن کی میونسپل کمیٹیوں میں اکثریت حاصل کی ہے۔ نیشنل پارٹی نے تربت میونسپل کارپوریشن میں واضح اکثریت لی ہے۔ انہیں پنجگور، خضدار، قلات، مستونگ، آواران، بارکھان اور نصیرآباد میں بھی نشستیں ملی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے قلات اور زہری میں اکثریت حاصل کی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی کارکردگی عام انتخابات کی نسبت اچھی نہیں رہی۔
تحریک انصاف کو صرف کوہلو میں کامیابی ملی ہے جہاں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر نصیب اللہ مری کی حمایت سے انہیں میونسپل کمیٹی کی نشستوں پر اکثریت ملی ہے۔
سینئر صحافی اورتجزیہ کار شہزاد ہ ذوالفقار  کا کہنا ہے کہ آزاد امیدوار وں کی بڑی تعداد میں کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بہت سے علاقوں میں لوگوں نے سیاسی جماعتوں کی بجائے شخصیات کوووٹ دیا۔ بہت سے حلقوں میں الیکٹیبلز نے بھی سیاسی جماعتوں سے وابستگی کے بجائے آزادانہ حیثیت سے اپنے امیدوار کامیاب کرائے۔
ان کا کہنا ہے کہ آزاد امیدواروں کا رجحان ان جماعتوں کی طرف ہوتا ہے جو ضلعی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو یا پھر وہ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ ملکر جوڑ توڑ میں حصہ لے کر زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شہزاد ذوالفقار کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے شمالی اور وسطی بلوچستان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی سیاسی و انتخابی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔

غیر حتمی نتائج کے مطابق 6 ہزار 259 بلدیاتی حلقوں میں سب سے زیادہ برتری آزاد امیدواروں کو ملی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے نزدیک جمعیت کی کامیابی کی ایک وجہ ان کا مرکز اور صوبے میں فعال سیاسی کردار ہے۔ ’مرکز میں ان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے اور بلوچستان میں بھی بارگیننگ کے لیے ان کی مضبوط پوزیشن ہے اس لیے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو، جام کمال اور سردار اختر مینگل سمیت سب ان کی طرف دیکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو ووٹ ان کو کسی جماعتی نظریے کی بنیاد پر نہیں ملا، ان کی جماعت کے قائدین نے تو انتخابی مہم میں حصہ تک نہیں لیا، انہیں ووٹ حکومت میں ہونے یا الیکٹ ایبلز کی وجہ سے ملے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کی کارکردگی سب سے بری رہی، گزشتہ عام انتخابات میں لوگ جس طرح ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی سے ناراض تھے اور بی این پی کو ووٹ دیا اب لگتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے بی این پی کی جگہ نیشنل پارٹی  کوووٹ دینا بہتر سمجھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وسطی اور مغربی بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے بڑا ہے، اس مسئلے کو حل کرنے اسی طرح بلوچستان میں جام کمال کی حکومت گرانے اور عبدالقدوس بزنجو کا لانے میں بی این پی کے کردار سے شاید لوگ خوش نہیں۔

شیئر: