Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور کی ایتھلیٹ بہنیں، ’ٹیلنٹ ضائع نہیں ہونا چاہیے‘

دونوں بہنیں نیشنل گیمز میں گولڈ اور سلور میڈل حاصل کر چکی ہیں (فوٹو: ویڈیو گریب)
پشاور کے مضافاتی علاقے سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں جنہوں نے حال ہی میں منعقد ہونے والی انڈر-21 نیشنل گیمز کی 800 میٹر ریس میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی، عزم، ہمت اور جدو جہد کا استعارہ بن کر ابھر رہی ہیں۔
حسناء اعوان گیارہویں اور ان کی چھوٹی بہن حفضہ اعوان نویں کلاس کی طالبہ ہیں نہ صرف دن بھر پڑھائی اور کھیل میں سخت محنت کرتی ہیں بلکہ گھر کا خرچ چلانے کے لیے رات کو پتنگیں بناتی ہیں۔ وہ ایک روز میں 300 سے 500 تک پتنگیں تیار کر لیتی ہیں۔
حسناء اعوان کے مطابق ان کے والد رکشہ چلا کے گھر کا خرچہ پورا کرنے کے ساتھ ان کے سکول اور کھیلوں کے اخراجات بھی پورے کرتے تھے لیکن اب وہ اکثر بیمار رہتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کے اخراجات کا انتظام کرنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ جس پر انہوں نے اور ان کی بہن حفضہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹائیں گی۔
’والد کی مدد کا ارادہ کرنے کے بعد ہم نے اپنے معمولات بدل لیے اور سکول، کالج اور سٹیڈیم سے واپسی کے بعد شام کو والد کے ساتھ مل کر پتنگیں بنانے کا کام شروع کر دیا۔‘ 
حسناء  کے مطابق وہ روزانہ سکول اور کالج کے بعد چھ سے سات کلومیٹر کا پیدل راستہ طے  کرکے اکیڈمی میں مارشل آرٹ اور پشاور کے قیوم سٹیڈیم میں ایتھلیٹیکس کی پریکٹس کرنے جاتی ہیں۔ 
انہوں نے بتایا کہ بچپن سے اپنے بھائی اور چچا کو کھیلتے دیکھ کر ان کا سپورٹس کی طرف رجحان پیدا ہوا۔
 ’جب والد کو اپنی خواہش کا بتایا تو انہوں نے بنا کسی رکاوٹ کے ہماری خواہش پوری کرنے کی حامی بھر لی اور ہمیں مارشل آرٹ سیکھنے کی اجازت دے دی۔‘ 
’اکیڈمی ہمارے گھر سے دور ہے اور گھر مضافاتی علاقے میں ہونے کی وجہ سے روزانہ پیدل اکیڈمی جانا پڑتا ہے، گاؤں کے لوگوں کی باتوں اور کسی ممکنہ نقصان پہنچنے سے بچانے کے لیے والد بھی ہمارے ساتھ اکیڈمی جا کر  پریکٹس مکمل ہونے تک ہمارا انتظار کرتے ہیں۔‘
حسناء نے بتایا کہ ’گاؤں میں اکیڈمی ہونے کی وجہ سے پریکٹس کرنا مشکل لگ رہا تھا کیونکہ  لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر خاندان اور گاؤں والوں نے کافی باتیں شروع کر دی تھیں۔ ہمارے کوچ نے مشکلات دیکھ کر مشورہ دیا کہ اگر واقعی آپ کو کھیلنے کا شوق ہے اور کھیلوں میں آگے جانا چاہتے ہو تو پشاور کے سپورٹس کمپلیکس میں داخلہ لے کر پریکٹس شروع کر دیں کیونکہ وہاں پر نہ تو کوئی کسی کو کھیلنے سے روکتا ہے اور نہ کوئی باتیں بناتا ہے۔‘
’اس کے بعد ہم دونوں بہنوں نے پشاور کے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں داخلہ لیا اور بیڈ منٹن کھیلنا اور سیکھنا شروع کر دی۔‘

گوہر علی کو بیٹیوں کے سپورٹس میں ہونے کی وجہ سے کرائے کا گھر خالی کرنا پڑا (فوٹو: ویڈیو گریب)

ساتھ ہی انہوں نے دوڑ میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی اور انڈر 21 نیشنل گیمز کے آٹھ سو میٹر ریس میں دونوں بہنوں نے پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کر کے بالتریتب سونے اور چاندی کے تمغے جیتے۔ 
حسناء اور حفضہ کے والد گوہر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب میری بیٹیوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ کھیلنا چاہتی ہیں تو مجھے گاؤں اور خاندان والوں کا پتہ تھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف ہوں گے۔
 ’لیکن میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو جس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے اسے وہی کرنا چاہیے اور ٹیلنٹ کو ضائع نہیں ہونا چاہیے، اس لیے لوگوں کی پرواہ کیے بغیر میں نے انہیں کھیلنے کی اجازت دے دی۔‘ 

تعلیم، پریکٹس اور گزربسر کے لیے والد کا ہاتھ بٹانا دونوں بہنوں کا روز کا معمول ہے (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے معاشرے میں خاتون اگر شٹل کاک برقعہ کے بغیر چادر میں باہر نکلے تو لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں کہ یہ بے حیائی پھیلا رہی ہے اور ماحول خراب کر رہی ہے، ایسے میں اگر پڑھائی سے ہٹ کر کھیل کے لیے خاتون باہر نکلے تو یہ ان کو برداشت نہیں ہوتا۔‘
گوہر علی کے مطابق ’میرے خاندان اور قریبی لوگوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، میں بالکل اکیلا ہو گیا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میری بچیاں سپورٹس یونیفارم، شرٹ اور ٹراوزرز پہنتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’علاقے کے لوگوں کے خلاف ہونے کے بعد ہمارے مالک مکان نے ایک گھنٹے کے اندر گھر خالی کرنے کا کہہ دیا۔ لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود میں مطمئن ہوں کیونکہ میری بچیاں وہ کچھ کر رہی ہیں جو ہر لڑکی نہیں کر سکتی۔‘ 

شیئر: