Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روس یوکرین تنازعے سے معاشی بحران، عرب شہریوں کو پرواہ نہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، امارات اور کویت جیسے امیر ممالک بیرونی بحرانوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
جہاں دنیا کے کئی ممالک روس یوکرین جنگ کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں، وہیں عرب ممالک کے رہائشیوں کو کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔
عرب نیوز کے خصوصی پول YouGov میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پورے مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے ممالک کے عوام کو اس ایشو سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
قاہرہ میں مقیم ورلڈ فوڈ پروگرام برائے مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کی ترجمان عبیر عاطفہ کہتی ہیں ’اس کی ایک وجہ یہ لگ رہی ہے کہ جیسے یہ خطے سے بہت دور ہے۔‘
یوکرین کا دارالحکومت کیئف ریاض سے تین ہزار کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر ہے۔
ان کے مطابق ’اس تنازع کے سیاسی اور دیگر پہلو اس خطے کے رہنے والوں کے لیے بہت زیادہ پیچیدہ ہیں۔‘
متذکرہ سروے میں 26 اپریل سے چار مئی تک مینا ریجن (،شرق وسطٰی اور شمالی افریقہ) ممالک کے 14 علاقوں کے سات ہزار 835 افراد کی رائے لی گئی۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ تنازع میں کس کی طرف کھڑے ہوں گے، اس کے جواب میں 18 فیصد نے یوکرین اور 16 فیصد نے روس کہا۔
تاہم اکثریت کی جانب سے یہی جواب دیا گیا کہ وہ کسی کی طرف داری نہیں کرتے۔ اردن اور الجیریا میں یہ تناسب 74 فیصد جبکہ سعودی عرب میں 71 فیصد رہا۔
برسلز میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر رچرڈ گاون یورپی تاریخ اور سیاست سے ہٹ کر اس کو ایک اور نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔
ان کے مطابق ’بنیادی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے زیادہ تر رہائشی اس کو نیٹو کی روس کے خلاف کارروائی سمجھتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ آپ مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں نیٹو اور امریکہ کے بارے میں شکوک جلد دور نہیں کر سکتے۔‘

عرب نیوز کے سروے میں سعودی عرب کے 71 افراد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی کی طرفداری نہیں کرتے (فوٹو: عرب نیوز)

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ اس تنازع کے پیچھے کئی اہم وجوہات موجود ہیں تاہم ان کا عرب دنیا سے کوئی تعلق نہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ تنازع کے اثرات عربوں کو متاثر ضرور کر رہے ہیں جن کو بنیادی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر جنگ کل رک جائے پھر بھی دنیا کو اس کے خوراک کے شعبے پر پڑنے والے اثرات سے نکلنے کے لیے چھ ماہ سے دو سال تک کا وقت درکار ہو گا۔
’حتیٰ کہ جنگ شروع سے قبل ہی فروری کے دوران خطے میں قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں۔‘
ان کے مطابق ’پچھلے سال لبنان میں بنیادی فوڈ باسکٹ کی قیمت میں 351 فیصد اضافہ ہوا جو کہ خطے میں سب سے زیادہ تھی اسی طرح شام میں یہ 97 فیصد اور یمن میں 81 فیصد تک گئی۔‘
 ماہرین کو امید تھی کہ انڈیا کی گندم یوکرین کی گندم کی کمی کو پورا کرے گی تاہم پچھلے ہفتے ہی وہاں کی حکومت نے گندم کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ اس سے قبل فصلیں شدید گرمی سے متاثر ہوئی تھیں اور اس وجہ سے بھی اشیائے خوردنی کی قیمتیں بڑھیں۔
عاطفہ کے مطابق ’یہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے لیے ایک مشکل وقت ہے۔ یوکرین تنازع کی وجہ سے ہمارے اخراجات میں 71 ملین ڈالر ماہانہ اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے وہ صلاحیت متاثر ہوئی ہے جس سے خطے کے بعض ممالک کی مدد کی جا رہی تھی۔‘

’یوکرین جنگ کی وجہ سے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اخراجات میں 71 ملین ڈالر ماہانہ اضافہ ہوا‘ (فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر خطہ 42 فیصد گندم اور 23 فیصد پکانے کا تیل روس اور یوکرین سے درآمد کرتا ہے۔
لندن کی یونیورسٹ میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے لیکچرار ڈاکٹر بامو نوری کہتے ہیں ’روس یوکرین جنگ جاری رہنے کی وجہ سے بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں عراقی پہل کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے عرب ممالک کے لوگوں کی جانب سے تنازع سے لاتعلق رہنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ بہت سی مشرق وسطٰی کی مشرقی ریاستون میں کسی بھی قسم کے بحران کو حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جب تک یہ عام آدمی تک نہیں پہنچتا، ردعمل کم سے کم ہی ہو گا۔
ان کے مطابق ’تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستیں جیسے سعودی عرب، یو اے ای اور کویت، ایسے ممالک ہیں جو کسی بھی بیرونی بحران کے اثرات کو کم سے کم رکھنے کے لیے ذرائع اور بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔‘
اسی طرح کم مستحکم ممالک جیسے عراق اور لبنان کے لوگ بیرونی حالات کو غور سے دیکھتا ہے اس لیے کہ انہوں نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے کیونکہ ان کی حکومتیں ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

شیئر: