Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکٹرانک اشیا کی درآمد پر پابندی سے موبائل فون کی صنعت بھی متاثر

مقامی فیکٹری کے ڈائریکٹر کے مطابق خام مال کی درآمد مکمل طور بند ہو گئی ہے اور اب آڈرز پورے کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
پاکستان کی مقامی موبائل سازی کی فیکٹری کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ موبائل فون کی اسمبلنگ کی صنعت بھی وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف اشیاء کی درآمد پر عائد پابندی کی زد میں آ چکی ہے جس سے پیداور بہت کم اور اس کام سے منسلک افراد کے بیروزگار ہونے کا خطرہ ہے۔
وفاقی حکومت نے حالیہ مالی بحران کی شدت کو کم کرنے کے لیے کئی اشیاء کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی جس کی وجہ سے موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک آلات کی اسمبلنگ کے لیے درکار پرزوں کو بھی ملک میں لانے سے روکا جا رہا ہے۔
کراچی کورنگی صنعتی علاقے میں قائم موبائل اسمبلنگ فیکٹری کے ڈائریکٹر عبدالوہاب نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے  لیٹرز آف کریڈٹ پراسیس نہ ہونے کی وجہ سے مقامی صنعتوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ’خام مال کی عدم دستیابی سے نہ صرف اسمبلنگ انڈسٹری متاثر ہو رہی بلکہ عملہ بھی کم کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ کی طلب و رسد میں بھی واضح فرق دیکھنے میں آیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ خام مال کی درآمد مکمل طور بند ہو گئی ہے اور اب آڈرز پورے کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک نے پرائیویٹ بینکوں کو پابند کیا ہے کہ مرکزی بینک سے منظوری لینے کے بعد ہی ایل سی کھولی جائے۔ ’ہمارے بینک نے 15 روز قبل ایل سی کھولنے کی درخواست دی تھی لیکن ابھی تک ہماری منظوری نہیں آئی ہے جس کی وجہ موبائل فون کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والا سامان درآمد نہیں کیا جاسکا۔‘
ایل سی یا لیٹر آف کریڈٹ بینک یا مالی ادارے کی طرف بھیجا جانے والی ایسی دستاویز ہے جو اس بات کی گارنٹی دیتی ہے کہ فروخت کنندہ خریدار سے مکمل رقم بروقت وصول کرے گا۔ اس کا استعمال عالمی کاروباری صنعت میں ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کے مرکزی بینک کی مںظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امپورٹ کے حوالے سے مرکزی بینک کی پالیسی واضح ہے۔ ’یہ کہنا کہ ایل سی کو مرکزی بینک روک رہا ہے بلکل غلط ہے۔‘
ترجمان کے مطابق مرکزی بینک کو ملنے والی تمام ایل سی درخواستوں کو قواعد و ضوابط کے تحت دیکھا جاتا ہے. نجی بینک جو بھی ایل سی بھیجتے ہیں اور ان میں کوئی اعتراض نہیں ہے تو مرکزی بینک اس کو منظور کرتا ہے۔ ’کسی ایک انفرادی کیس میں اگر کوئی مسئلہ سامنے آیا ہے تو اسے دیکھنے کے بعد ہی بات کی جا سکتی ہے۔‘
تاہم مقامی فیکٹری کے ڈائریکٹر عبدالوہاب کا دعویٰ ہے کہ مرکزی بینک کے قانون کے مطابق 100 فیصد ادائیگی کے بعد بھی ان کو ایل سی نہیں مل رہی جس کی وجہ سے پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ 

چین کی کمپنی زیڈ ٹی ای نے بھی پاکستان میں فون اسمبلنگ کا پلانٹ لگانے کا معاہدہ کیا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ان کا کہنا تھا کہ یومیہ دس ہزار موبائل فون فیکٹری میں اسمبل ہوتے ہیں مگر اب خام مال نہیں ہے تو موبائل فون کی تیار کیسے کریں؟ ’مجبوراً ہمیں سٹاف کم کرنا پڑا ہے۔ پہلے 700 افراد ہمارے پاس کام کر رہے تھے مگر اب صرف 200 افراد رکھے ہیں، کام نہیں ہوگا تو صنعت کو کیسے چلائیں گے؟‘
عبدالوہاب نے بتایا کہ ان کی فیکٹری پاکستان میں اس وقت صرف موبائل اسمبل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ’ہمیں ابھی موبائل فون کی تیاری کا بیشتر سامان باہر سے ہی درآمد کرنا پڑتا ہے اگر فوری اس جانب  توجہ نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے 7 اپریل 2022 کو جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ 31 دسمبر 2022 تک 100 فیصد کیش مارجن پر نجی بینکوں کو  ایل سی کھولنا ہوگی۔ ساتھ جاری کی گئی تفصیلات میں 177 آئٹمز کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔

شیئر: