Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ختم کی جائے، موٹر ڈیلرز کا مطالبہ

وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ ’موٹر ڈیلرز کے خط میں دی گئی تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہےُ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی گفٹ سکیم کے تحت امپورٹ کی جانے والی پرانی گاڑیوں کو پابندی سے استثنیٰ دیا جائے۔
پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے اس مطالبے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان گاڑیوں کی وجہ سے پاکستان سے پیسہ باہر نہیں جاتا بلکہ ڈیوٹیز کی مد میں لاکھوں ڈالر پاکستان آتے ہیں۔
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’19 مئی 2022 کو جاری کیے جانے والے ایس آر او میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں جن پر نہ صرف استعمال شدہ کاروں کا کاروبار کرنے والوں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی تشویش ہے اس لیے ترمیم ضروری ہے۔‘
خط کے متن کے مطابق ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے گفٹ سکیم کے تحت پاکستان بھیجی جانے والی گاڑیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظر بیرون ملک سے گاڑیوں سمیت پُرتعیش اشیا کی درآمد پر پابند عائد کر رکھی ہے۔ 
پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ اس سکیم کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستان اپنے متعلقہ ملک سے اپنے اکاؤنٹ سے وہیں پر کمائی ہوئی رقم سے گاڑی خریدتے ہیں اور جب اسے پاکستان بھیجتے ہیں تو حکومت پاکستان کو ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی مد میں رقم فراہم کرتے ہیں۔
ان کے بقول ’یہ کمرشل امپورٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان سے پیسہ باہر جائے بلکہ اس سکیم سے ڈالرز سرکاری خزانے میں آتے ہیں۔‘
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن نے وزیراعظم کو لکھے جانے والے خط کی کاپی وزارت خزانہ، وزارت تجارت سمیت متعدد اہم وزراء اور حکام کو بھی بھیجی ہے۔

حکومت نے ملکی معاشی صورت حال کے پیش نظر بیرون ملک سے گاڑیوں سمیت پُرتعیش اشیا کی درآمد پر پابند عائد کر رکھی ہے (فوٹو: روئٹرز)

اس حوالے سے وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ ’خط میں دی گئی تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے لیکن براہ راست اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔‘
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام نے بتایا کہ ’کار ڈیلرز کا یہ کہنا کہ ان گاڑیوں کی امپورٹ میں پیسہ پاکستان سے باہر نہیں جاتا، درست نہیں ہے بلکہ یہ ڈیلرز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کو پیسے دے کر ان کے ذریعے گاڑیاں امپورٹ کر سکیں۔ اس لیے پیسہ باہر تو جاتا ہے لیکن اس کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ ملکی معاشی صورت حال بہتر ہونے کے ساتھ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اس سلسلے میں حکومت سے رابطہ کیا گیا تو اس کا جائزہ لے کر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم فی الحال ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔  
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2020-21 میں 40 ہزار گاڑیاں ٹی آر گفٹ سکیم کے ذریعے لائی گئیں جن سے کسٹم، ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی مد میں قومی خزانے کو 30 کروڑ ڈالر ملا جو 60 ارب روپے بنتے ہیں۔ کورونا کی وبا سے قبل کے اعداد و شمار یعنی 2018-19 میں 80 ہزار گاڑیاں آئی تھیں اور 100 ارب روپے کا ریونیو وفاقی حکومت کو ملا تھا۔  

حکام نے بتایا کہ ’کار ڈیلرز کا یہ کہنا کہ ان گاڑیوں کی امپورٹ میں پیسہ پاکستان سے باہر نہیں جاتا، درست نہیں‘ (فوٹو: پاک وہیلز)

آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز سے گفتگو میں وزارت تجارت کے حکام کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’جب موٹر ڈیلرز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے گاڑیاں خریدتے ہیں تو اس سلسلے میں کبھی بھی پیسہ باہر نہیں بھیجتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس عمل میں دو طرح سے پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے ایک تو ٹیکس آتا ہے دوسرا جو گاڑی پاکستان آتی ہے اس کی قیمت کی ادائیگی بھی پاکستان میں ہی گاڑی بھیجنے والوں کے اہل خانہ کو کی جاتی ہے۔ وہ پیسہ بھی پاکستان میں ہی رہ جاتا ہے جبکہ گاڑی کے مارکیٹ میں آنے سے پیسہ گردش میں آتا ہے اور کئی لوگوں کا روزگار چلتا ہے۔‘ 
ایچ ایم شہزاد کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں جب ہم کسی بھی بیرون ملک پاکستانی کی جانب سے بھیجی گئی گاڑی فروخت کرتے ہیں تو اس کے رشتہ داروں کو رقم کی ادائیگی چیک یا پے آرڈر کے ذریعے کرتے ہیں تاکہ اس کا ریکارڈ موجود رہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ گفٹ سکیم کے تحت منگوائی گئی گاڑیوں کے لیے پیسہ باہر جاتا ہے درست نہیں ہے۔‘

شیئر: